021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تقسیم شدہ جائیداد میں سترسال بعد بعض ورثہ کےدعوی کا حکم
77350میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارے میں کہ باپ 1950 کی دہائی میں اپنی دختر کو اور پسران کو اپنی حیات میں وقتاً فوقتاً اپنی جائیداد تملیک کر چکا ہو ، باپ کی وفات 1970 میں ہو گئی ہو اور بیٹی کی وفات 2016 میں ہو چکی ہو اوربیٹی کےشوہر کی وفات 1997 میں ہو چکی ہو تو

(۱) کیا اب 70 سال بعد بیٹی کے ورثہ اپنے ماموؤں سے تملیک شدہ اراضی کے انتقال کی بابت باز پرس کر سکتے ہیں؟

(۲)یا ان کے باقبضہ زمین(جو ان کو اپنے نانا کی طرف سے ان کی والدہ کو دی گئی ہو۔)میں انتقال میں کمی بیشی سے متعلق اپنے ماموؤں سے انتقال یا زمین کا تقاضا/مطالبہ کر سکتے ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر والد نے اپنے بیٹی اور بیٹوں کو اپنی جائیداد زندگی ہی میں مکمل مالکانہ اختیارات کے ساتھ حصے الگ الگ کرکے حوالہ کردی ہو تو  اس سے متعلقہ افراد کی ملکیت ثابت ہوجائے گی اور کسی دوسرے کے لیے ان سے اس بارے میں کسی بھی مطالبہ کا حق نہیں رہے گا، لیکن اگر صرف ملکیت کی بات کی ہو اور زندگی میں حصے الگ الگ کر کے مکمل مالکانہ اختیارات کے ساتھ حوالگی نہ پائی جائے تو ایسی صورت میں ایسی زمین  اصل مالک کے مرنے کے بعد اس کے ورثہ میں تقسیم ہوگی اور ان کے لیے ان کے مطالبہ کا شرعی حق رہے گا۔

اگرچہ فقہاءکرام نےبلاعذرچھتیس سال تک دعوی دائرنہ کرنےکی صورت میں دعوی قابل سماعت نہ ہونےکافیصلہ فرمایا ہے،لیکن اگراس کےباوجودکسی طرح یقین حاصل ہوجائے کہ مدعی واقعۃ بر حق ہےتواس سےزائدمدت کےبعدبھی دعوی سناجائے گا۔(احسن الفتاوی:ج۷،ص۲۱۳)واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

حوالہ جات
۔۔۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

 ۶ ذی الحجہ۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب