021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بدن پر پانی والےدانوں کے پانی کا حکم
78123پاکی کے مسائلمعذور کے احکام

سوال

مجھےجلد کا انفیکشن ہےجس کی وجہ سے میری جلد میں چھوٹے دانے پڑ جاتے ہیں اور اس میں پانی کی طرح مائع ہوتا ہے،یہ پیپ یا خون نہیں ہے،صرف مائع کی طرح صاف پانی ہے۔ کیا یہ بھی نجس ہے؟ مجھےیہ انفیکشن اس وقت سے ہے،جب میں 10 سال کاتھااوراس کا کوئی مستقل علاج نہیں ہے۔

1)اگر یہ نجس ہیں اور ان میں پانی نکل کر اوپر کی جلد پر ہی ٹہر جاتا ہے اورجب میں اس سے صاف کرتا ہوں تو 1یا2 منٹ بعد پھرصرف اُتنا ہی پانی نکل کرٹہر جاتا ہےاوراگرصاف نہ کروں تواور پانی نہیں نکلتاتو کیایہ بہتاہوااورنجس شمار کیا جائے گایاپاک؟

 2) اگریہ الگ الگ جگہ سےنکلے،مثلا اگرایک جگہ انگوٹھےسےنکل کرچمڑی پرٹہرگیاہےاورساتھ ایک اورانگلی میں بھی اُتنا ہی نکل کرٹہرگیاہےالگ جگہ سےتو کیاسب کوملا کراندازہ لگایاجائےگا کہ سب قطرے اگرساتھ مل جائیں تو بہہ جائیں گےاورنجس ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسؤلہ میں چونکہ دانوں کا پانی ایسا نہیں ہے کہ اگر صاف نہ  کیا جائے تو بہنے کے قابل ہو،لہذا ایسے دانوں سے نکلنے والا پانی نجس نہیں اور اس سے وضو بھی نہیں ٹوٹے گا،البتہ اگر کسی جگہ سے اتفاقا اتنا پانی نکلتا ہے کہ اگر اس کو چھوڑدیا جائے تو بہہ پڑے تو وہ نجس ہوگا اور اس سے وضو ٹوٹ جائے گا،نیز ایک مجلس میں باربار صاف کرنے کی صورت میں  صاف کئے گئے پانی کا مجموعہ اگر بہنے کے قابل بن جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا،لہذا ایسے پانی کو صاف کرنےکے بجائے رہنے دیں تاکہ وضو نہ ٹوٹے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 135)
ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور وفي غيرهما عين السيلان ولو بالقوة، لما قالوا: لو مسح الدم كلما خرج ولو تركه لسال نقض وإلا لا،
(قوله: عين السيلان) اختلف في تفسيره؛ ففي المحيط عن أبي يوسف أن يعلو وينحدر. وعن محمد إذا انتفخ على رأس الجرح وصار أكثر من رأسه نقض. والصحيح لا ينقض. اهـ. قال في الفتح بعد نقله ذلك، وفي الدراية جعل قول محمد أصح ومختار السرخسي الأول وهو الأولى اهـ. أقول: وكذا صححه قاضي خان وغيره. وفي البحر تحريف تبعه عليه ط فاجتنبه ۔۔۔۔
 (قوله: لو مسح الدم كلما خرج إلخ) وكذا إذا وضع عليه قطنا أو شيئا آخر حتى ينشف ثم وضعه ثانيا وثالثا فإنه يجمع جميع ما نشف، فإن كان بحيث لو تركه سال نقض، وإنما يعرف هذا بالاجتهاد وغالب الظن، وكذا لو ألقى عليه رمادا أو ترابا ثم ظهر ثانيا فتربه ثم وثم فإنه يجمع. قالوا: وإنما يجمع إذا كان في مجلس واحد مرة بعد أخرى، فلو في مجالس فلا تتارخانية، ومثله في البحر.
أقول: وعليه فما يخرج من الجرح الذي ينز دائما وليس فيه قوة السيلان ولكنه إذا ترك يتقوى باجتماعه ويسيل عن محله فإذا نشفه أو ربطه بخرقة وصار كلما خرج منه شيء تشربته الخرقة ينظر، إن كان ما تشربته الخرقة في ذلك المجلس شيئا فشيئا بحيث لو ترك واجتمع أسال بنفسه نقض، وإلا لا، ولا يجمع ما في مجلس إلى ما في مجلس آخر، وفي ذلك توسعة عظيمة لأصحاب القروح ولصاحب كي الحمصة، فاغتنم هذه الفائدة، وكأنهم قاسوها على القيء؛ ولما لم يكن هنا اختلاف سبب تعين اعتبار المجلس فتنبه۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۱ربیع الثانی۱۴۴۴ھپ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب