021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شریک کی کفالت وضمانت کاحکم
77509کفالت (ضمانت) کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

مفتی صاحب!میرا سوال یہ ہےکہ زید پکوان سینٹر پردیگ پکانے کا کاروبار کرتا تھا،اس کے ساتھ عمر بھی کاروبار میں شریک تھا،خالد کی عمر کے ساتھ جان پہچان تھی،ایک مرتبہ عمر نے خالد کو کال کی کہ ایک جگہ دیگ پکوائی کا آرڈر آیا ہے،اگر آپ اس میں شرکت کرنا چاہتے ہیں تو پیسے دے دیں،خالد نے حامی بھر لی،چنانچہ زید اور عمر دونوں ایک ساتھ خالد کے پاس آئے اور خالد نے پیسے عمر کے ہاتھ میں دے دیئے(زید کے ساتھ سناشائی عمر کے واسطے سے ہی ہوئی تھی)زید نے وہ پیسے بھی کاروبار میں لگا لیئے،مہینہ بعد زید نے بتایا کہ کاروبار میں آپ کو 7000 روپے منافع ہوا ہے۔ اسی دوران ایک دن خالد عمر کے پاس جا رہا تھا،راستے میں زید سے ملاقات ہوئی تو زید نے کہا کہ پیسے ابھی آپ کو نہیں ملیں گے،مجھے کچھ مہلت دے دو،خالد نے مہلت دے دی۔جب خالد کی ملاقات عمر سے ہوئی تو عمر نے کہا آپ کو زید نے کیا کہا ہے؟ خالد نے کہا مجھ سے مہلت مانگ رہا تھا،میں نے مہلت دے دی،عمر نے کہا آپ نے مہلت نہیں دینی تھی،میں اس سے پیسے نکلوانے کے چکر میں ہوں تو خالد نے کہا اگر مسئلہ ہے تو میں ابھی جاکر اس سے مہلت ختم کرواتا ہوں،عمر نے کہا نہیں،چھوڑو رہنے دو۔پھر یہ معاملہ چلتا رہا،پیسے نہیں ملے،ایک دن عمر نے خالد کو کال کی کہ زید بھاگ گیا ہے،آپ کے پیسے میں کسی طرح پورے کر کے دوں گا،زید نے کہا چلو دیکھتے ہیں،اس کی تلاش وغیرہ جاری تھی کہ عمر نے فون پر خالد کو بتایا کہ زید واپس آ گیا ہے، اب وہ دوبارہ کام شروع کر رہا ہے،خالد نے کہا میں آتا ہوں،اس کے پاس جاتا ہوں اور چیک وغیرہ پر اس سے دستخط لیتا ہوں،اسی دوران زید بھی خالد کو فون کر کے بتاتا رہا کہ میں آپ کے پیسے لوٹا دوں گا،لیکن خالد عمر کے کہنے پر ہی اسے کہتا رہا کہ میں نے پیسے عمر کو دیئے ہیں،میں ہر صورت میں لوں گا،خالد کی طرف سے مسلسل اصرار رہا کہ میرے پیسے دو،پھر عمر نے کہا آپ اسے مہلت دے دو، لگتا ہے اب صحیح کام کرے گا،آپ اس کو تنگ نہ کرو،خالد نے عمر کے کہنے پر مہلت دے دی، لیکن زید دوبارہ فیملی سمیت بھاگ گیا۔اب اس کے بارے میں کسی کو کوئی علم نہیں کہ کہاں ہے؟ اس نے عمر کو جو معلومات وغیرہ دی تھی،سب غلط تھیں ،اب خالد کا کہنا ہے کہ میں نے پیسے عمر کے واسطے سے دیئے تھے اور میرا تعلق عمر کے ساتھ تھا،لہذا عمر میرے پیسوں کا ضامن تھا اور دونوں کاروبار میں کافی عرصے سے شریک بھی تھے،لیکن عمر انکار کرتا ہے۔اولا عمر کہتا ہے،آپ نے مہلت نہیں دینی تھی جبکہ خالد کہتا ہے،میں نے اسی وقت کہا تھا"میں مہلت کے الفاظ واپس لیتا ہوں۔" لیکن آپ نے منع کیا تھا،پھر جب زید واپس آیا تو خالد اس سے اشٹام یا چیک بک اور اس کے مکمل ایڈریس کی بات کر رہا تھا تو آپ نے ہی مجھے منع کیا تھا،عمر کہتا ہے وہ میں نے بطور مشورے کے کہا تھا،خالد کا کہنا ہے کہ وہ مشورہ نہیں تھا،بلکہ ایک معاملہ تھا،آپ کے کہنے پر چھوڑا ۔خالد کا کہنا ہے کہ میں نے پیسے آپ کے ہاتھ میں آپ کی ضمانت پر دیئے تھے۔سوال یہ ہےکہ اب عمر ان پیسوں کا ضامن ہو گا یا نہیں؟ قرآن وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ واضح ہو کہ خالد نے پیسے عمر کی وجہ سے دیئے تھے،خالد کی زید کے ساتھ دعا سلام عمر کی وجہ سے ہوئی تھی،اس لیے خالد نے تحریر وغیرہ نہیں لی۔ ابتداء میں عمر کہتا تھا کہ میں آپ کو تھوڑے تھوڑے کر کے واپس کروں گا،پھر عمر نے کہا نصف لے لو،خالد نے انکار کر دیا،تب عمر نے کہا"میری طرف آپ کے پیسے نہیں بنتے ۔"

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں اگر عمر نےواضح طور پر ضمانت دی ہو کہ اگر خلاف ضابطہ  کام یا نقصان ہواتو میں ذمہ دار ہوں تو ایسی صورت میں عمربطور کفیل  ذمہ دار ہوگا، چاہے عمر زید کے ساتھ کاروبار میں شریک ہو یا نہ ہو، خالد کو زید اور عمر دونوں سے لینے کا اختیار ہوگا اور عمر سے ضمان لینے کی صورت میں بعد میں عمر کو زید سے وصولی کا اختیار ہوگااور اگر ضمانت دینے کی صورت نہ تھی،بلکہ صرف کاروبار میں شرکت کی ترغیب دی تھی اورعمر کو نقصان ہونے کا یقین نہیں تھاتو ایسی صورت میں عمر ضامن نہیں بنے گا۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 170)
فإن قلت: سيأتي قبيل باب كفالة الرجلين قال لآخر اسلك هذا الطريق، فإنه آمن فسلك، وأخذ ماله لم يضمن ولو قال: إن كان مخوفا وأخذ مالك فأنا ضامن ضمن وعلله الشارح هنالك بأنه ضمن الغار صفة السلامة للمغرور نصا اهـ أي بخلاف الأولى، فإنه لم ينص على الضمان بقوله فأنا ضامن، وفي جامع الفصولين الأصل أن المغرور إنما يرجع على الغار لو حصل الغرور في ضمن المعاوضة أو ضمن الغار صفة السلامة للمغرور فيصار كقول الطحان لرب البر: اجعله في الدلو فجعله فيه، فذهب من النقب إلى الماء، وكان الطحان عالما به يضمن؛ إذ غره في ضمن العقد وهو يقتضي السلامة. اهـ. قلت: لا بد في مسألة التغرير من أن يكون الغار عالما بالخطر كما يدل عليه مسألة الطحان المذكورة، وأن يكون المغرور غير عالم إذ لا شك أن رب البر لو كان عالما بنقب الدلو يكون هو المضيع لماله باختياره، ولفظ المغرور ينبئ عن ذلك لغة لما في القاموس غره غرا وغرورا فهو مغرور وغرير خدعه وأطمعه بالباطل فاغتر هو. اهـ.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۱محرم۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب