021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عارضی نماز کی جگہ کا انتظام ہونے کے باوجود مسجد تعمیر کرنا
77183وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

منشی نور عالم ولد مہدی خان نے آج سے چوبیس سال قبل ایک مسجد اپنے رقبہ میں تعمیر کی ،جس کی تعمیر میں اس کے حقیقی رشتدار بھی شامل تھے، مسجد کے گرد ونواح میں محلے والوں کو چند اعتراضات کی بنا پر مسجد کی تعمیر میں شامل نہیں کیا، تاحال یہ مسجد غیر آباد ہے، اس مسجد کے ساتھ نہ وضو خانہ کی جگہ ہے نہ پانی کی سہولت اور نہ ہی باتھ روم و مسافر خانے کی سہولت ہے، آج تک منشی نور عالم نے تعمیر مسجد کے رقبے کومسجد کے لیے وقف بھی نہیں کیا ہوا ہے،اس وقت مسجد کے نام کوئی زمین درج نہیں ہے،جس کی وجہ سے مسجد کی تعمیر و ترقی اور اس کی آباد کاری کی انتظامی کمیٹی اور کوئی امام و مؤذن موجود نہیں ہے،منشی نور عالم ولد مہندی خان اس مسجد کی تعمیر و ترقی ،انتظامی معاملات اور آباد کاری میں حائل رکاوٹ ہے۔

رہنمائی فرمائیں کہ محلے کے لوگ تمام ضروریات مذکورہ کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب جگہ خرید کر مسجد تعمیر کرسکتے ہیں؟ اور اگر کرسکتے ہیں تو یہ پہلی مسجد کا ڈسپوزل کیا ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسلمان اہل محلہ کے لیے مسجد بنیادی شرعی ضرورت ہے،لہٰذا سوال میں ذکر کردہ تفصیلات کے مطابق چونکہ مسجد کی ضرورت ہے اس لیے اہل محلہ اپنی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب جگہ خرید کر مسجد تعمیر کرسکتے ہیں اور کرنی بھی چاہیے،رہی بات منشی نور عالم کی نماز کے لیے مقرر کردہ جگہ کی،تو سوال میں ذکرکردہ تفصیل کے مطابق اگر انہوں نے اپنی زمین میں نماز باجماعت کی اجازت ہمیشہ کے لیے دی تھی یا مطلقاً اجازت دی تھی لیکن نیت ہمیشہ کے لیے اسےمسجد بنانے کی تھی تو ان دونوں صورتوں میں یہ زمین مسجد کے لیے وقف ہوچکی ہے لہٰذا اسےآباد کرنا یہ اہل محلہ کے لیے ضروری ہے اور اگر انہوں نے کچھ وقت کے لیے عارضی طور پر اپنی زمین میں نماز با جماعت کےانتظام کی اجازت دی تھی تو پھر یہ زمین ان کی ملکیت میں برقرار ہے لہٰذا ہر طرح کا جائز مالکانہ تصرف وہ اس زمین میں کرسکتے ہیں۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (19/ 204)
وذكر الصدر الشهيد رحمه الله تعالى في الواقعات في باب العين من كتاب الهبة والصدقة .رجل له ساحة لا بناء فيها أمر قوما أن يصلون فيها بجماعة فهذا على ثلاثة أوجه : أحدها إما أن أمرهم بالصلاة فيها أبدا نصا ، بأن قال : صلوا فيها أبدا أو أمرهم بالصلاة مطلقا ونوى الأبد ،ففي هذين الوجهين صارت الساحة مسجدا لو مات لا يورث عنه ، وإما ان وقت الأمر باليوم أو الشهر أو السنة .ففي هذا الوجه لا تصير الساحة مسجدا لو مات يورث عنه ، كذا في الذخيرة وهكذا في فتاوى قاضي خان .
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 355)
(ويزول ملكه عن المسجد إلخ) اعلم أن المسجد يخالف سائر الأوقاف في عدم اشتراط التسليم إلى المتولي والمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه)بجماعة وقيل: يكفي واحد وجعله في الخانية ظاهر الرواية.
{إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (18) } [التوبة: 18، 19]

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

۱۱/ذو القعدۃ۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب