021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"تم فارغ ہو”کے لفظ سے طلاق واقع نہ ہونے پر ایک استفسار کا جواب
72791طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی سے طلاق کے حوالہ سے ایک سوال دریافت کیا گیا تھا،جس میں ایک لفظ"  فارغ " کا حکم بھی دریافت کیا گیا تھا۔جواب میں لکھا گیا تھا کہ یہ لفظ کنائی ہے اور اگر شوہر کی نیت نہ  ہوتو طلاق واقع نہیں ہوئی۔

میرا سوال یہ ہے کہ احسن الفتاوی جلد5 صفحہ 188 پر فارغ کے لفظ سے طلاق کے جواب میں صراحت ہے کہ فارغ کا لفظ صرف جواب کے لیے مستعمل ہوتا ہے،اس لیے قرینہ کی موجودگی میں بھی بلا نیت طلاقِ بائن واقع ہو جاتی ہے۔اس سے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمارے پوچھے گئے مسئلہ میں بھی طلاق واقع ہو،کیونکہ شوہر کا یہ کہنا کہ میں قسم کھاتا ہوں کہ آپ کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا،تم فارغ ہو اور اس سے پہلے شوہر کا یہ کہنا کہ تم مجھے طعنہ دیتی ہو۔کیا یہ طلاق کےقرائن نہیں ہیں؟

براہ کرم ! جواب ارشاد فرما دیجیے اور مسئلہ کا حکم بھی دوبارہ واضح کر دیں۔سابقہ فتوی سوال کے ساتھ لف ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

"تم فارغ ہو" کے الفاظ کنائی ہیں،جن سے طلاق واقع ہونے کے لیے ضروری ہےکہ شوہر طلاق کی نیت کرے،یا ایسے قرائن ہوں جنہیں مذاکرہ طلاق یا دلالت حال  پر محمول کرتے ہوئے بغیر نیتِ زوج طلاق قرار دیا جا سکے۔ صورتِ مسئولہ میں شوہر نے جب پہلے طلاقِ صریح دی تو اسے اگلی طلاق  بائن کے لیے قرینہ یعنی دلالتِ حال بنا کر طلاق قرار دیا جا سکتا تھا، لیکن مجلس بدلنے سے اس  کا حکم بدل گیا اور اسے اگلی طلاق کے لیے قرینہ نہیں بنایا جا سکتا۔

احسن الفتاوی میں جو یہ لکھا ہے کہ:" عرف میں یہ لفظ صرف جواب کےلیے مستعمل ہے،اس لیے عندالقرینہ بلا نیت بھی طلاقِ بائن واقع ہو جائے گی۔" (احسن الفتاوی:5/188) یہاں قرینہ سے مراد مذاکرہ طلاق یا دلالتِ حال ہے،لیکن سوالِ مذکورہ میں مستفتی نے جن قرائن کا ذکر کیا ہے کہ:" میں قسم کھاتا ہوں کہ آپ کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا،تم فارغ ہو ۔۔۔تم مجھے طعنہ دیتی ہو " وغیرہ، اگر سیاق وسباق کو دیکھا جائے،تو انہیں طلاق کے لیے  قرائن بنانا مشکل ہے،اس لیےکہ شوہر یہاں طلاق نہیں دینا چاہتا،نہ بیوی نے اس کا مطالبہ کیا ہے،بلکہ شوہر یہاں محبت والی جذباتی کیفیت میں ہےاورحسرت و افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:"تم مجھے اپنے اور میرے تعلق کے طعنے دیتی ہو،تمہیں پتہ نہیں کہ میاں بیوی کا تعلق کیسا ہونا چاہیے،میں قسم کھاتا ہوں کے آپ کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا۔۔۔میں آپ کو  پسند نہیں تو آپ کے  قریب بھی نہیں آؤں گا۔" اور پھر اس کے بعد شوہر قسم توڑ دیتا ہے۔اس سیاق و سباق اور پس منظر کو اگر دیکھا جائے تو سوال میں ذکر کردہ قرائن کو طلاق کے قرائن نہیں قرار دیا جاسکتا۔ لہٰذا دارالافتاء سے جاری شدہ پہلا فتوی ہی راجح ہے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی :الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية ،أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق، أو الغضب.
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی :قوله:(أو دلالة الحال):المراد بها الحالة الظاهرة المفيدة لمقصوده، ومنها ما تقدم ذكر الطلاق بحر عن المحيط،ومقتضى إطلاقه هنا كالكنز، أن الكنايات كلها يقع بها الطلاق بدلالة الحال. قال في البحر: وقد تبع في ذلك القدوري والسرخسي في المبسوط، وخالفهما فخر الإسلام وغيره من المشايخ فقالوا بعضها: لا يقع بها إلا بالنيةقوله:( وهي حالة مذاكرة الطلاق): أشار به إلى ما في النهر من أن دلالة الحال تعم دلالة المقال قال: وعلى هذا فتفسر المذاكرة بسؤال الطلاق، أو تقديم الإيقاع، كما في اعتدي ثلاثا،وقال قبله: المذاكرة أن تسأله هي أو أجنبي الطلاق .قوله:( أو الغضب) ظاهره أنه معطوف على مذاكرة، فيكون من دلالة الحال.
)الدرالمختار مع ردالمحتار:3/296،297)

عرفان حنیف

دارالافتاء،جامعۃالرشید،کراچی

  10 شعبان المعظم /1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عرفان حنیف بن محمد حنیف

مفتیان

فیصل احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / شہبازعلی صاحب