021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایک وارث کا ذاتی رقم سے خرید کردہ پلاٹ کا حکم (ایک وارث کے ذاتی رقم سے خرید کردہ پلاٹ میں وراثت جاری نہیں ہوگی)
74414میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

کیا  فرماتے ہیں  مفتیان  کرام اس مسئلہ  کے بارے میں  کہ  ایک آدمی  کے فوت ہونے کے بعد   میراث  تقسیم نہیں  ہوئی اس کے  دو بیٹے   مشترکہ طور پر   گھر کا خرچہ چلاتے ہیں ، اور دونوں  بھائی  تنخواہ  دار ہیں ، گھر  کا خرچہ   مشترکہ طور پر برداشت  کرتے ہیں لیکن رقم متعین نہیں کہ   ایک بھائی   کتنا خرچہ کریگا ۔

اسی طرح سلسلہ چلتا رہا  اسی  دوران   بڑے بھائی ﴿ یعنی  مرحوم کے بڑے بیٹے ﴾ نے اپنی  تنخواہ   سےکچھ  کچھ رقم جمع کرکے  ایک پلاٹ خرید کر  اپنے  نام کرلیا ہے، اب تقسیم  میراث  کے وقت   ان کا کہنا یہ ہے کہ   یہ پلاٹ  میں نے اپنی ذاتی   تنخواہ  کی رقم سے خریدا  ہے  اس کو   والد صاحب  کے ترکے  میں شامل نہیں کرونگا ۔

دونوں  بھائی شادی شدہ ہیں  اور  چھوٹے  بھائی کی   صرف بیوی ہے ، بچے نہیں  ہیں ،جبکہ  بڑے بھائی کے بچے بھی ہیں ۔

اب سوال  یہ ہے کہ یہ پلاٹ  ترکہ میں شامل ہوگا یا نہیں ؟  اور  دونوں بھائیوں  کے آپس میں تقسیم ہوگا یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگراس پلاٹ کی خریداری  میں والدمرحوم کے  ترکے  کی رقم شامل نہیں تھی،اسی طرح  چھوٹے  بھائی کی رقم بھی  شامل نہیں تھی،  نیز دونوں  بھائیوں  کا آپس میں  کوئی   باقاعدہ معاہدہ  بھی نہیں ہوا  کہ ایک بھائی  جو جائداد  خریدے گا  اس میں  دوسرا بھی شریک ہوگا ۔ تو ایسی  صورت میں یہ  پلاٹ بڑے  بھائی کی ملکیت قرار پائے  گا ۔لہذا اس  کو ترکہ  میں شامل نہیں  کیاجائے گا۔نہ اسے دونوں بھا ئیوں کے درمیان تقسیم  کرنا ضروری ہوگا۔

البتہ  اگر بڑے  بھائی نے اس طرح چالاکی سے کا م لیا ہے کہ چھوٹے بھائی کی پوری  تنخواہ  گھر کے اخراجا ت بھی لگاکر  اور خود اپنی تنخواہ کی  بچت کرتا  رہا ، تو ایسی صورت  میں  دیانة  واجب ہوگا  کہ   گھر کے خرچوں  میں  چھوٹے  بھائی کی جتنی رقم اضافی  خرچ ہوئی ہےوہ اس کو ادا کرے۔ اور صلح  کے طورپر  یہ بھی جائز ہے  کہ اس  پلاٹ میں چھوٹے  بھائی کو بھی اپنے ساتھ شریک کرلے ۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 325)
وما حصله أحدهما فله وما حصلاه معا فلهما) نصفين إن لم يعلم ما لكل (وما حصله أحدهما بإعانة صاحبه فله ولصاحبه أجر مثله بالغا ما بلغ عند محمد. وعند أبي يوسف لا يجاوز به نصف ثمن ذلك)
وقال ابن عابدیں  رحمہ اللہ ؛
لما في القنية الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب ثم ذكر خلافا في المرأة مع زوجها إذا اجتمع بعملهما أموال كثيرة، فقيل هي للزوج وتكون المرأة معينة له، إلا إذا كان لها كسب على حدة فهو لها، وقيل بينهما نصفان.
وفي الخانية: زوج بنيه الخمسة في داره وكلهم في عياله واختلفوا في المتاع فهو للأب وللبنين الثياب التي عليهم لا غير، فإن قالوا هم أو امرأته بعد موته: إن هذا استفدناه بعد موته فالقول لهم، وإن أقروا أنه كان يوم موته فهو ميراث من الأب.       

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشید    کراچی

۴ربیع الثانی ١۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب