021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تقسیم میراث کا ایک مسئلہ (چار بھائی اور دوبہنوں میں میراث کی تقسیم)
73956میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

جناب مفتی صاحب عرض  یہ ہے کہ   ہم  کل  چھ بھائی بہنیں  ہیں   ،  1۔ فداحسین  2۔ حامد حسین  3۔  ذاکر  حسین  4۔ عابد حسین  5۔ فریدہ خاتون  6۔ فاطمہ تبسم ۔اور ہمارے  والد اور  والدہ  دونوں  کچھ  جائداد  چھوڑ کر  انتقال  کرگئے ہیں ۔بھائی   ذاکرحسین کا بھی  کا بھی  انتقال ہو گیا ہے ،ان کی ایک   بیوہ اور پانچ  بچے   حیات ہیں دو لڑکے  تین  لڑ کیاں ۔

ہماری والدہ  کا انتقال  19اپریل  2019ء ہوا۔

بھائی  ذاکر حسین کا  انتقال 18 جنوری 2020  میں  ہوا  ۔

ہمارےوالد  صاحب  کا انتقال   29 مئی  2020ء میں ہوا۔

جائداد کی  تفصیلات  درج ذیل ہیں ۔

1۔  نیو کراچی کا مکان  والد صاحب نے اپنی زندگی  ہی میں  تقسیم کرکے  فریدہ  خاتون  اور  فاطمہ  تبسم کو آدھا آدھا    حصہ مالکانہ  حقوق کے ساتھ دیدیا تھا۔ایک  بہن اپنے حصے میں  رہ رہی  ہے اور دوسری  نے بھی  اپنے حصے میں مکان  تعمیر کرلیا۔

2۔فاطمہ  جناح  کالونی کا مکان   جس  میں  والد صاحب اور ہم چاروں  بھائیوں کے لئے  چار پوشن  بنائے گئے  سب ابھی  تک  اسی مکان  میں رہائش پذیر ہیں ،اس  مکان کے متعلق  والد صاحب  نے  حج پر جاتے ہوئے  وصیت  فرمائی تھی  کہ اگر ھج میں  میرا انتقال ہوگیا  تو  یہ مکان  تم چاروں  لے لینا ، لیکن  اس سفر  میں والد  صاحب کا انتقال   نہیں ہوا تھا ۔

3۔ مسلم ٹاؤن کا  مکان ،اورنگی ٹاون کا مکان  یہ دونوں  والدہ کے نام ہے۔

4۔ دکان دو عدد والدہ کے نام ہے،سائل نے فون پر بتایا ان تینوں  چیزوں کی  والدہ کو  مالک  نہیں  بنایا گیاتھا۔

5۔دکان  دو عدد   والد صاحب کے نام ہیں۔

نوٹ ؛ میں  محمد حامد   حسین  نے  والدہ  کی زبان  سے سناتھا  کہ  چاروں  بھائی ایک ایک  دکان لے لیں گے۔

مذکور  ہ بالا تفصیل کی روشنی  میں   ہماری  رہنمائی  فرمائیں کہ  جائداد  کی تقسیم کیسے  ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بطور وضاحت  یہ بات سمجھ لیں کہ  کوئی  جائداد خریداری کے  وقت  صرف کسی کے نام  کرنے سے وہ مالک نہیں بنتا ،مالک  بننے کے لئے ضروری ہے کہ ھبہ کرکے  باقاعدہ  طور پر اس کوجائداد کا  مالک بنادیا جائے ،دوسری  بات یہ ہے کہ وارث  وہ قریبی  رشتہ دار ہے جو میت  کے انتقال کے وقت  زندہ  ہو،   اگر کسی وارث کا انتقال میت سے پہلے ہوجائے   تو اس کا میت کی میراث میں کوئی حصہ نہیں ہوتا ہے۔

اس وضاحت  کے بعد  آپ کے والدین اور بھائی  مرحوم  میں  سے ہر ایک کےترکہ کو اس طرح  تقسیم کیاجائے گا ۔

والدہ  مرحومہ کے ترکہ کی  تقسیم کا  طریقہ

مرحومہ   کے  انتقال کے وقت  ان کی ملک میں   منقولہ غیر منقولہ جائداد  ،  سونا  چاندی ، نقدی  اور چھوٹا بڑا جو بھی سامان   تھا   سب  مرحومہ  کا ترکہ  ہے ، اس میں سے پہلے اگر   مرحومہ کے ذمے کسی  کا قرض ہو تو   اس کو ادا   کیاجائے ، اس کے بعد   اگر مرحومہ نےکسی  غیر وارث کے لئے کوئی  جائز وصیت کی ہو   تو تہائی مال کی حد تک اس پر عمل کیاجائے ، اس کے بعد    مال کو مساوی 40 حصوں میں  تقسیم کرکے  دس  حصے  شوہر کا  ہو گا ﴿ یعنی  آپ کے والد کا ﴾ اور  اس کے بعد    چاروں لڑکوں میں  سے ہر ایک  کو 6،6 حصے  دیئے  جائیں  اور  دونوں لڑکیوں میں سے ہر ایک کو   3،3 حصے  دئے جائیں گے۔

2۔ذاکر حسین  کے ترکہ کی تقسیم  کا طریقہ

مرحوم ذاکر حسین   کے  انتقال کے وقت  ان کی ملک میں   منقولہ غیر منقولہ جائداد  ،  سونا  چاندی ، نقدی  اور چھوٹا بڑا جو بھی سامان   تھا   سب  مرحوم  کا ترکہ  ہے ، اس میں  ما ں کی میراث سے ملنے والا  حصہ بھی  شامل کیاجائے۔ اس میں سے سب پہلےکفن دفن کا متوسط حصہ نکالاجائے ،  اس کے بعد اگر   مرحوم کے ذمے کسی  کا قرض ہو تو   اس کو ادا   کیاجائے ، اس کے بعد   اگر مرحومر حوم نےکسی  غیر وارث کے لئے کوئی جائز  وصیت کی ہو   تو تہائی مال کی حد تک اس پر عمل کیاجائے ، اس کے بعد مال کو  24 حصوں  میں تقسیم کرکے  4 حصہ  والد کا اور  3حصے  بیوہ کے  ہونگے ، بقیہ  مال کو سات  حصوں میں تقسیم کرکے   دونوں لڑکوں کو  دو دو حصے  اور تینوں  لڑکیوں کو  ایک ایک  حصہ دیا جائے ۔

مرحوم  والد کے ترکہ کی   تقسیم کا طریقہ

مرحوم کے  انتقال کے وقت  ان کی ملک میں   منقولہ غیر منقولہ جائداد  ،  ﴿ مکا نات ،دکانیں ﴾سونا  چاندی ، نقدی  اور چھوٹا بڑا جو بھی سامان   تھا   سب  مرحوم  کا ترکہ  ہے ، اس میں   بیوی  کی میراث سے ملنے والا  حصہ اور بیٹا  ذاکر حسین  کی  طرف سے ملنے والاحصہ بھی  بھی  شامل کیاجائے۔ اس میں سے سب پہلےکفن دفن کا متوسط حصہ نکالاجائے ،  اس کے بعد اگر   مرحوم کے ذمے کسی  کا قرض ہو تو   اس کو ادا   کیاجائے ، اس کے بعد   اگر مرحومر حوم نےکسی  غیر وارث کے لئے کوئی جائز  وصیت کی ہو   تو تہائی مال کی حد تک اس پر عمل کیاجائے ۔

اس  کے بعد  مال  کو مساوی   آٹھ  حصوں  میں تقسیم کرکے   تینوں  لڑکوں کو  دودو حصے اور لڑکیوں کو ایک ایک  حصے  دیاجائے۔

نوٹ؛ چونکہ  مرحوم  ذاکر حسین  اپنے والد  کی زندگی میں انتقال کرچکاتھا  اس لئے ان کو  اپنے  والد کی میراث  سے حصہ

نہیں ملے گا۔البتہ  دیگر  ورثا کو  چاہئے کہ  بطور  تبرع واحسان  ذاکر حسین کی بیوی  بچوں  کو  کچھ مال  دے جس  سے  ان کو  سہارا مل سکے ۔

حوالہ جات
۰۰۰۰۰

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

       دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

١۹محرم  الحرام  ١۴۴۳ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب