021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مکان کی وراثت کا مسئلہ
78285میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

          مفتی صاحب!  میرے والد  1988ء  میں فوت ہوئے۔ میری والدہ  1998ء  میں فوت ہوئیں۔ والدین کی طرف سے ہمارے پاس وراثت میں ایک مکان آیا جس میں ہم چار بھائی اور ایک بہن والدہ کے ساتھ رہ رہے تھے۔ کاغذات میں یہ مکان والدہ اور ہم پانچ بہن بھائیوں کے نام ہے۔  دسمبر 2002ء  میں میری اور بہن کی شادی ہوگئی۔ اُس وقت مکان سنگل سٹوری تھا۔ شادی کے بعد ہم چاروں بھائی اکٹھے ہی مکان میں رہتے رہے۔  2015ء میں سب سے چھوٹے بھائی کی جب شادی ہوئی تو وہ شادی کے تقریباً چھ مہینے بعد اپنی فیملی کو لیکر میانوالی چلا گیا جہاں اُس کی جاب تھی۔ 2015ء میں مکان ڈبل سٹوری بن چکا تھا۔ یعنی ہم چاروں بھائیوں نے مشترکہ کھاتے میں سے مکان کو ڈبل سٹوری کرلیا۔ چھوٹے بھائی کی علیحدگی کے بعد ہم تین بھائی ابھی تک اکٹھے ہی مکان میں رہ رہے ہیں اور 2015 ء سے اب تک مکان میں مزید تقریبا  تین لاکھ   تک  پیسہ لگا چکے  ہیں، جس  میں لکڑی کا کام اور دیگر کام شامل ہیں۔والدہ کی وفات کے بعد بڑا بھائی ہونے کے ناطے میں گھر کا سربراہ بن گیا ، لہٰذا بھائیوں کے دیگر تمام اخراجات بشمول پڑھائی سے متعلق میں اپنی طرف سے کر تا رہا ۔

          اس تمہید کے بعد یہ وضاحت درکار ہے کہ ہم نے مکان کی یہ وراثت تقسیم کرنی ہے۔ بہن جو کہ 2019ء  میں فوت ہو گئی تھی۔ اُس کے دو بچے اور شوہر حیات ہیں۔ اُن کے شوہر نے حال ہی میں دوسرا نکاح کر لیا ہے۔ مگر بچے اُن کے پاس ہی رہ رہے ہیں۔ بہن کو مکان میں سے حصہ کس حساب سے دیں؟ سنگل سٹوری کے حساب سے یا ڈبل سٹوری کے حساب سے ؟

اسی طرح چھوٹا بھائی جو کہ 2015ء میں علیحدہ ہو اتھا ، اُسے کس حساب سے حصہ دیا جائے گا؟ ہم تین بھائی اکٹھے رہ رہے ہیں۔ یعنی یہ مکان فی الحال ہمارے استعمال میں رہے گا۔ہمارے نانا جان  2014ء  میں فوت ہوئے تھے ، جن کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں حیات ہیں۔ ایک بیٹی فوت ہو چکی ہے ، جس کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں     ہیں۔ کیا نانا کو  (یعنی اب ان کی اولاد کو)  مکان میں سے حصہ ملے گا؟ اگر ملے گا تو کس حساب سے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 مسئولہ صورت  میں اصل  حکم تو یہی تھا کہ  مرحوم  والد کے  انتقال کے ساتھ  ہی  ان کی میراث  تقسیم ہوجاتی ،لیکن  ایسا  نہ ہوسکا بلکہ  سب ورثاء مشترکہ  طور پر ان کے مکان  میں رہتے  رہے  پھر  سب  بھائیوں  نے  مشترکہ  طورپر   مکان  کی اضافی  تعمیر میں حصہ  لیا  ہے، لہذا اصل مکان  آپ  کے والد مرحوم کا  ہے، پھر جب تک   بھائی بہنوں کا خرچ  مشترک  تھا اس وقت تک  کا تعمیری اضافہ بھی  سب کا مشترک   شمار ہوگا ،اوراس مکان سے 2015   میں  ایک  بھائی  کے جدا  ہونے  کے  جو رقم  خرچ ہوئی  ہے  یہ  کوئی  بڑی رقم نہیں ہے اس ليے اس کو خرچ کرنے  والوں  کی  طرف سے تبرع  اور احسان  سمجھاجائے ،کیونکہ  اتنے عرصے  تک انہی شرکاء نے  اس مکان  سے  فائدے   حاصل کئے  ہیں ۔ لہذ  اس مکان کی موجودہ  قیمت  لگاکرذرج  ذیل   تفصیل  کے مطابق آپس میں  تقسیم  کریں۔

مرحوم  والد  کی میراث کی تقسیم

مرحوم نے انتقال کے وقت  اپنی ملک میں مذکورہ  مکان اور اس  کے علاوہ  منقولہ غیر منقولہ  جائداد ،سونا چاندی  ، نقدی  اور  چھوٹا  بڑا  جو بھی سامان   چھوڑا  ہے ،  سب مرحوم کا  ترکہ ہے،سب سے پہلےاگر مرحوم کے ذمے کسی  کا قرض  ہو وہ  ادا کردیاجائے ، اس کے بعد  مرحوم نے کسی غیر  وارث کے حق  میں کوئی جائز وصیت کی ہو  تو  تہائی مال کی حد تک اس پر عمل کیاجائے ،اس کے بعد   کل مال  کو مساوی  بہترحصوں میں تقسیم کرکے مرحوم  کی بیوہ  کونو﴿9 ﴾حصے اور چاروں   لڑکوں میں سے ہرایک کو  چودہ ﴿ 14﴾ حصے او ر لڑکی کو سات﴿7 ﴾حصے دئیے جائیں گے۔

نوٹ ؛  لڑکی  کو  ملنے والا  حصہ   ان کے شوہر  اور اولاد  میں شرعی  اصول  کے مطابق   تقسیم کیاجائے گا

مرحومہ  والدہ  کی میراث کی تقسیم

مرحومہ  نے انتقال کے وقت  اپنی ملک میں اپنے  شوہر کے ترکے سے ملنے والا  مال اور اس  کے علاوہ  منقولہ غیر منقولہ  جائداد ،سونا چاندی  ، نقدی  اور  چھوٹا  بڑا  جو بھی سامان   چھوڑا  ہے ، سب مرحومہ کا  ترکہ ہے،سب سے پہلےاگر مرحومہ کے ذمے کسی  کا قرض  ہو وہ  ادا کردیاجائے ، اس کے بعد اگر  مرحومہ نے کسی غیر  وارث کے حق  میں کوئی جائز وصیت کی ہو  تو  تہائی مال کی حد تک اس پر عمل کیاجائے ،اس کے بعد   کل مال  کو مساوی  54حصوں میں تقسیم کرکے مرحومہ  کے  والد  کو 9 حصے  دیئے جائیں  اور  مرحومہ کے  چاروں  لڑکوں میں سے ہر ایک  کو 10 حصے  اور لڑکی  کو 5 حصے  دئیے  جائیں گے۔

مرحوم نانا  کی  میراث کی تقسیم  

مرحوم نے انتقال کے وقت  اپنی ملک میں منقولہ غیر منقولہ  جائداد ،سونا چاندی  ، نقدی  اور  چھوٹا  بڑا  جو بھی سامان   چھوڑا  ہے ، اس میں اپنی  مرحومہ بیٹی کے ترکہ سے ملنےوالا مال  شامل کیاجائے یہ سب مرحوم کا  ترکہ ہے،سب سے پہلےاگر مرحوم کے ذمے کسی  کا قرض  ہو وہ  ادا کردیاجائے ، اس کے بعد  مرحوم نے کسی غیر  وارث کے حق  میں کوئی جائز وصیت کی ہو  تو  تہائی مال کی حد تک اس پر عمل کیاجائے ،اس کے بعد   کل مال  کو اس طرح تقسیم کیاجائے گا  کہ لڑکوں کو  دودو حصے اور لڑکیوں کو ایک ایک حصہ دیاجائے  ۔  اورجو لڑکی اپنے مرحوم والد کے انتقال کے بعد   فوت ہوئی ہے  اس کو  بھی دیگر  بہنوں کے  برابر  حصہ  ملے گا۔ اور   پھر  یہ حصہ  اس  فوت  شدہ لڑکی  کے ورثا ء میں  تقسیم ہوگا ۔     

حوالہ جات
1۔الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 747)
(عمر دار زوجته بماله بإذنها فالعمارة لها والنفقة دين عليها) لصحة أمرها (ولو) عمر (لنفسه بلا إذنها العمارة له) ويكون غاصبا للعرصة فيؤمر بالتفريغ بطلبها ذلك (ولها بلا إذنها فالعمارة لها وهو متطوع) في البناء فلا رجوع له ولو اختلفا في الإذن وعدمه، ولا بينة فالقول لمنكره بيمينه، وفي أن العمارة لها أو له فالقول له لأنه هو المتملك كما أفاده شيخناوتقدم في الغصب.
2۔          الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 325)
(وما حصله أحدهما بإعانة صاحبه فله ولصاحبه أجر مثله بالغا ما بلغ عند محمد. وعند أبي يوسف لا يجاوز به نصف ثمن ذلك)مطلب: اجتمعا في دار واحدة واكتسبا ولا يعلم التفاوت فهو بينهما بالسوية [تنبيه] يؤخذ من هذا ما أفتى به في الخيرية في زوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ كل منهما يكتسب على حدة ويجمعان كسبهما ولا يعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمييز.
فأجاب بأنه بينهما سوية، وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي اهـ
        3۔                 مجلة الأحكام العدلية (ص: 175)
(المادة 906) إذا كان المغصوب أرضا وكان الغاصب أنشأ عليها بناء أو غرس فيها أشجارا يؤمر الغاصب بقلعها وإن كان القلع مضرا بالأرض فللمغصوب منه أن يعطي قيمته مستحق القلع ويضبط الأرض ولكن لو كانت قيمة الأشجار أو البناء أزيد من قيمة الأرض وكان قد أنشأ أو غرس بزعم سبب شرعي كان حينئذ لصاحب البناء أو الأشجار أن يعطي قيمة الأرض ويتملكها. مثلا لو أنشأ أحد على العرصة الموروثة له من والده بناء بمصرف أزيد من قيمة العرصة ثم ظهر لها مستحق فالباني يعطي قيمة العرصة ويضبطها.

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

       دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

۳ جمادی  الاولی   ١۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب