021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ہنڈی کے کاروبار کی ایک صورت کا حکم
75608جائز و ناجائزامور کا بیانبچوں وغیرہ کے نام رکھنے سے متعلق مسائل

سوال

میرے بھائی ٹریول  ایجنسی میں ڈیوٹی کرتا ہے ،ان کا کا م اکاؤنٹنٹ کا   ہے ، ان کا کاروبار   سعودیہ میں بھی ہے،وہ لوگوں  سے ریال لیکر  اس کے  بدلے میں پاکستان میں، ان  لوگوں کے رشتے داروں  کو  پاکستانی روپے دیتے ہیں ،معاملہ   اس طرح طئے   ہوتا ہے کہ  اگر   بینک  والے ایک  لاکھ  پاکستانی کے  لئے  2300 ریال  لیتے ہیں  تو ہنڈی والے  2500 ریا ل لیتے ہیں ۔ اور   اگر  کسی  بندے کے پاس  نقد ریا ل نہیں ہے   تو ادھار پر   2800 ریال  لیتے ہیں ، جوفکس  ہوتا  ہے کہ ہفتے کے بعد دےگا  تب بھی  2800 لیتا  ہےاور  مہینے کے  بعد دے تب بھی  2800 ہی  ہوتا ہے ۔

سوال یہ ہے کہ   ایسا کاروبار کرنا  جائز ہے یا نہیں ؟میرے  بھائی کی ڈیوٹی کر نا  درست ہے یا نہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ہنڈی کے کاروبار میں اگر ایک ملک کی کرنسی کو دوسرے ملک کی  کرنسی سےکمی  زیادتی کے ساتھ  تبا دلہ  کیا جائے  تو   اس طرح کمی  زیادتی کے ساتھ  تبادلہ  کرنا جائز ہے، البتہ  یہ ضروری ہے کہ  جس   مجلس میں  تبادلہ کا عقد  ہوا  اس مجلس میں کم ازکم ایک فریق   روپے پر قبضہ کرلے ،دوسرا  فریق چاہے تو  اسی وقت  قبضہ کرے   چاہے بعد میں  تاکہ   افتراق   عن دین بدین  لازم  نہ آئے ۔کیونہ  رسول اللہ  صلی اللہ  علیہ وسلم  نے بیع  الکالی  بالکالی  کو ممنوع قرار  دیا ہے ۔

اس  وضاحت کے بعد   پہلی صورت  جس میں  ریال تو مجلس عقد میں نقد  ادا کیا جا ئے اور  اس کے بدلے میں پاکستانی رقم  پاکستان میں ادا کیاجائے گا ،  یہ صورت  جائز ہے ۔

دوسری صورت  جو سوال میں مذکور  ہے کہ 2800 ریا  ل   کے عوض  پاکستان میں ایک لاکھ  اد اکیاجائے گا لیکن  ریال ادھارہوگا یعنی مجلس  عقدمیں ادا نہیں کیا جائے گابلکہ  بعد میں  کسی  اور وقت ادا کرے گا تو  شرعا  یہ معاملہ  جائز نہیں  کیونکہ کرنسی کی بیع میں  دونوں  فریق  کا  بغیر  قبضہ جدا ہونے سے  افتراق دین بدین لازم  آرہا ہے، جوکہ  شرعا  ناجائز ممنوع   ہے ۔آپ کے بھائی کے لئے وہاں کام کرنے کا  حکم یہ ہے کہ اگر  کاروبار جائز طریقے سے  ہورہا  ہو تو اپنا کام جاری  رکھے اگر جائز طریقے  سے  نہ ہورہا ہو   تو کام کو   چھوڑ دے ۔

حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (14/ 24)
وإذا اشترى الرجل فلوسا بدراهم ونقد الثمن، ولم تكن الفلوس عند البائع فالبيع جائز؛ لأن الفلوس الرابحة ثمن كالنقود، وقد بينا أن حكم العقد في الثمن وجوبها ووجودها معا، ولا يشترط قيامها في ملك بائعها لصحة العقد كما يشترط ذلك في الدراهم والدنانير.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 179)
(باع فلوسا بمثلها أو بدراهم أو بدنانير فإن نقد أحدهما جاز) وإن تفرقا بلا قبض أحدهما لم يجز لما مر
 قال ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی ؛  لأن ما في الأصل لا يمكن حمله، على أنه لا يشترط التقابض، ولو من أحد الجانبين، لأنه يكون افتراقا عن دين بدين وهو غير صحيح. فيتعين حمله على أنه لا يشترط منهما جميعا بل من أحدهما فقط

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

۲۵جمادی  الثانیہ  ١۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب