021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بچیوں کو مکان ھبہ کرنے کاحکم
74246میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

میرے  خالو   جناب  عبد الباسط مرحوم   کا دو سال قبل انتقال   ہوا   ،    ورثا میں    ان کی دو بیٹیاں ،  بیوہ  ، اور مرحوم  کے بھائی  اور بہن ہیں   ،  مرحوم   کی ملکیت میں  ایک مکان کراچی گلبرگ  میں  تھا ، انہوں نے  یہ مکان 1996 ءمیں  اپنی دونوں بیٹیو ںکوہدیہ   کرکے     ایک گفٹ  نامہ بنوا  دیاتھا ،  اس کے بعد   وہ گھر  کرایہ پر دیدیا تھا ،   جس کا کرایہ مرحوم  خود    رکھتے  تھے ،  کیونکہ سب کی باہمی رضامندی سے   یہ بات طے تھی  کہ   والدین﴿  یعنی   میرے  خالہ اور خالو﴾ میں  سے    کوئی  ایک جب تک حیات  رہیں گےکرایہ وہی رکھیں گے ۔

مذکورہ بالا وضاحت  کی روشنی میں    درج ذیل سوالات  کے جوابات مطلوب ہیں ،

1۔ اب خالو  عبد الباسط کے انتقال  کے  بعد    اس  ھبہ  کردہ  مکان کا  حقدار    صرف    خالو   مرحوم کی دونوں بیٹیاں ہیں  یا  دیگر  ورثا    یعنی بیوہ  بھائی بہنوںکا  بھی  اس  میں  حق  ہے ؟

2۔  اگر  دیگر ورثا  کابھی حق  ہے تو   تقسیم کا  طریقہ کیا ہوگا ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۔ ھبہ مکمل ہونے کے لئے ضروری ہےکہ جس کو  ھبہ کیا جائے موہوبہ  چیز   اس کو   قبضہ  میں دے کر مالکانہ  تصرف کی اجازت دیدی جائے کہ  ھبہ کرنے والے کا اس سے کسی  قسم کا تعلق باقی  نہ رہے۔

مسئولہ صورت میں مرحوم نے  اپنی زندگی  میں جو مکان  دونوں بچیوں کو  ہدیہ ﴿ گفٹ ﴾ کرکے  دیا ہے    چونکہ  سائل  کےبقول باقاعدہ  قبضہ میں دیکر  مالکانہ  تصرف کی اجازت  نہیں دی ہے ، صرف  گفٹ نامہ  بنواکر  دیا اور یہ بھی شرط رکھی ہے  کہ  تاحیات  کرایہ والدین   ہی وصول  کریں گے ، اس لئے شرعا یہ  ھبہ  مکمل  نہیں ہوا  ،مکان بدستور  مرحوم   عبد الباسط کی ملک  میں باقی  ہے ، لہذا یہ مکان دیگر  ترکہ  میں شامل ہوکر  تمام  شرعی  ورثا کے درمیان  تقسیم ہوگا۔

2۔ مرحوم عبد الباسط کے  انتقال کے وقت  ان کی ملک میں   سوال میں مذکور مکان سمیت منقولہ غیر منقولہ جائداد  ،  سونا  چاندی ، نقدی  اور چھوٹا بڑا جو بھی سامان   تھا   سب  مرحوم  کا ترکہ  ہے۔ اس میں سے سب سے پہلےکفن دفن کا متوسط خرچہ نکالاجائے ،  اس کے بعد اگر   مرحوم کے ذمے کسی  کا قرض ہو تو   اس کو ادا   کیاجائے ، اس کے بعد   اگر مر حوم نےکسی  غیر وارث کے لئے کوئی جائز  وصیت کی ہو   تو تہائی مال کی حد تک اس پر عمل کیاجائے ، اسکے بعد  مال کو  مساوی  24 حصوں میں  تقسیم کرکے   دونوں لڑکیوں میں سے ہر ایک  کو8 حصے  اور  مرحوم کے  بیوہ  کو  3حصے  دیئے  جائیں  گے،بقیہ  مال مرحوم کے   بھائی  بہنوں میں اس طرح  تقسیم ہوگا  کہ بھائی کو   دوحصے  اور  بہن  کو ایک حصہ ۔

حوالہ جات
رد المحتار (24/ 9)
و ) شرائط صحتها ( في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول ) كما سيتضح .
رد المحتار (24/ 20)
( وتتم ) الهبة ( بالقبض ) الكامل ( ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به )
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 223)
قال: "ولا تجوز الهبة فيما يقسم إلا محوزة مقسومة، وهبة المشاع فيما لا يقسم جائزة"
     

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

       دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

۲۲ صفر ١۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب