021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی پر بدکاری کا الزام لگانے کاحکم
74153جائز و ناجائزامور کا بیانبچوں وغیرہ کے نام رکھنے سے متعلق مسائل

سوال

لڑکے لڑکی  کا آپس میں  نکاح ہوا   اور ابھی تک  رخصتی نہیں  ہوئی ، اس دوران  لڑکےنے اپنی بیگم پر کسی دوسرے  لڑکے   کے ساتھ    بدکاری  کا الزام لگایا ، پھر  اس مئلے  کو حل کرنے  کے لئے   چھ رکنی جرگہ  کمیٹی قائم ہوئی ، جس  میں سب نے قسم اٹھائی   کہ حق  اور سچ فیصلہ  کریں گے ، بصورت دیگر ہم پر ہماری بیویاں  طلاق  ہوجائیں  گی ،پھر جرگہ   کمیٹی   نے   تحقیق    کے بعد فیصلہ  سنایا  کہ لڑکے   نے لڑکی  پر جو  الزام  لگا یا ہے   وہ جھوٹا   تھا ۔ لڑکی بے قصور   ہے، اور جرگہ والوں نے   لڑکے  پر جرمانہ  بھی عائد  کیا   جو اس نے ادا  کردیا ،  اس فیصلے کے بعد  لڑکی   اپنے شوہر  کے ساتھ رہنا  نہیں چاہتی ،  لیکن  شوہر طلا ق نہیں  دے رہاہے ،  اگر  خلع  کی بات  کی جائے تو لڑکے   والے  زیاد ہ   رقم مانگتے ہیں  جو  لڑکی والوں کی  طاقت سے زیادہ  ہے ،  اب اس مسئلے کا کوئی آسان  حل بتائیں ؟گر  مسئلے میں لعان کروانا چاہیں  تو اس کی کیا  صورت  ہوگی ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی  پر  بلا تحقیق  الزام لگانا  بڑا گناہ ہے ، لہذاشوہر نے اگر واقعة    بیوی پر جھوٹا  الزام لگایا ہے جیسا کہ جرگہ  کے فیصلے سے ثابت ہوا ہے،  توشوہر پر لازم ہے کہ توبہ  استغفار کرے ، اور بیوی سے بھی معافی مانگے، جن لوگوں کے سامنے الزام لگایا تھا اور جن لوگوں تک الزام کی   خبر پہنچی هے ، ان کے سامنے  بیوی کے اس  الزام سے بری ہونے کا اعلان  بھی کرے۔ اگر شوہر ایسا کرلے تو  بیوی کو چاہئے کہ اپنے   شوہر کو معاف کردے ، اور آیندہ کے لئے ازدواجی  زندگی  بحال کرلے ۔

اگر  وہ  سمجھتی  ہے کہ اس شوہر کے ساتھ گذارہ بہت مشکل ہوگا تو اس مسئلے کو  حل  کرنے کا  آسان  طریقہ   یہ ہے کہ    دوبارہ   جرگہ   بلایا جائے ، ان کے ذریعہ   طلاق  حاصل کی جائے ،   اگر شوہر طلاق پر رضامند نہیں ہے البتہ  خلع کے لئے تیار ہے جیسا کہ  سوال میں مذکور ہے تو آپس میں  خلع کا معاملہ  کرلیا جائے۔

 باقی خلع کے معاوضہ  کا حکم  یہ ہے  اگر ظلم وزیادتی  شوہر کی   طرف سے ہے  تو  شوہر کے لئے معاوضہ  وصول کرنا مکروہ  تحریمی ہے ، اگر زیادتی  عورت کی طرف سے   یا دونوں کی طرف سے ہے  تو معاوضہ لینا  جائز  ہے،تاہم کو شش کی جائے  کہ معاوضہ  کی مقدار  اس  سے زیادہ  نہ  ہو  جو شوہر نے  بطور مہر کے ادا کیا  ۔

نوٹ ؛سوال میں ذکر کردہ  مسئلے میں  لعان  نہیں  ہوگا  کیونکہ   لعان کی  ضرورت  تب   پیش  آتی  ہے کہ  شوہر  اپنی  بیوی  سے   پیدا  شدہ  بچہ  کے نسب کا  انکار کرے یہاں  وہ  صورت نہیں ہے ۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 445)
(وكره) تحريما (أخذ شيء) ويلحق به الإبراء عما لها عليه (إن نشز وإن نشزت لا) ولو منه نشوز أيضا ولو بأكثر مما أعطاها على الأوجه فتح، وصحح الشمني كراهة الزيادة، وتعبير الملتقى لا بأس به يفيد أنها تنزيهية وبه يحصل التوفيق.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 445)
(قوله: وكره تحريما أخذ الشيء) أي قليلا كان، أو كثيرا.
والحق أن الأخذ إذا كان النشوز منه حرام قطعا - {فلا تأخذوا منه شيئا} [النساء: 20]- إلا أنه إن أخذ ملكه بسبب خبيث، وتمامه في الفتح، لكن نقل في البحر عن الدر المنثور للسيوطي: أخرج ابن أبي جرير عن ابن زيد في الآية قال: ثم رخص بعد، فقال - {فإن خفتم ألا يقيما حدود الله فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229]- قال فنسخت هذه تلك اهـ وهو يقتضي حل الأخذ مطلقا إذا رضيت اهـ أي سواء كان النشوز منه أو منها، أو منهما. لكن فيه أنه ذكر في البحر أولا عن الفتح أن الآية الأولى فيما إذا كان النشوز منه فقط، والثانية فيما إذا لم يكن منه فلا تعارض بينهما، وأنهما لو تعارضتا فحرمة الأخذ بلا حق ثابتة بالإجماع، وبقوله تعالى - {ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا} [البقرة: 231]- وإمساكها لا لرغبة بل إضرارا لأخذ مالها في مقابلة خلاصها منه مخالف للدليل القطعي فافهم    

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

١۰/۲/١۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب