021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"تم فارغ ہو”کے الفاظ سے طلاق کا حکم
71214طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائےکرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے اور شوہر کے درمیان لڑائی جھگڑا چل رہا تھا،میں ان سے ناراض تھی۔ایک دن ہم گاڑی میں  گھر سے باہر گئے تو دوران سفر  ہمارے درمیان تلخ کلامی ہوگئی۔اچانک میرے شوہر نے اس دوران کہا:تمہیں طلاق ہے۔پھر کچھ وقفے کے بعد کہا:اگر تم نے جانا ہو تو،پھر بات تبدیل ہوگئی اور دوسری باتوں پر ہماری بحث شروع ہوگئی۔

تھوڑی دیر بعد ہم گھر واپس آگئے تو میرے شوہر نے کمرے میں جا کر رونا شروع کر دیا اور مجھے کمرے سے باہر جانے کو کہا۔میں نے اپنے شوہر سے معافی مانگی ،پھر بھی وہ روتے رہے۔اس دوران میرے شوہر نے کہا کہ آپ مجھے اپنے اور میرے تعلق کے طعنے دیتی ہو۔آپ کو پتہ نہیں کہ میاں بیوی کا تعلق کیا ہونا چاہیے؟ میں قسم کھاتا ہوں کہ آپ کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا،تم فارغ ہو۔بعد میں جب میرے شوہر نارمل ہوگئے تو میں نے ان سے ان الفاظ کا مطلب پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ"میں آپ کو پسند نہیں تو آپ کے قریب بھی نہیں آؤں گا"۔پھر انہوں نے قسم توڑ دی اور نارمل ہوگئے۔اس کے بعد ہم دونوں میں میاں بیوی والے تعلقات پھر سے بحال ہوگئے اور ہم دونوں اگٹھے رہنے لگے۔کچھ عرصہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ ان الفاظ سے طلاق بھی ہوتی ہے تو میرے پوچھنے پر شوہر نے کہا کہ میرا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا اور نہ مجھے علم تھا کہ ان الفاظ سے طلاق ہوتی ہے اور میں اس پر قسم کھانے کو بھی تیار ہوں۔سوال یہ ہے کہ کیا ان الفاظ سے طلاق واقع ہوئی ہے؟ اوراگر ہم آئندہ اگٹھے رہنا چاہیں تو اس کا کیا حل ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شوہر نے جب پہلی مرتبہ کہا:"تمہیں طلاق ہے"تو اس سے ایک طلاقِ رجعی واقع ہو ئی۔اس کے کچھ دیربعد"اگر تم نے جانا ہو تو"کے الفاظ کہنےسے یہ حکم نہیں بدلتا۔پھر گھر میں جب شوہر نے "تم فارغ ہو" کہا اور اس سے اس کی نیت طلاق کی نہیں تھی تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔

لہٰذا  ایک طلاقِ رجعی کے بعد آپ دونوں میں میاں بیوی والے تعلقات قائم ہونے  کی وجہ سے رجوع

ہو گیا،لہٰذا اب آپ دونوں کے درمیان نکاح باقی ہے۔البتہ شوہر کو آئندہ صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا،اس لیے آئندہ احتیاط کریں۔

حوالہ جات
قال الشیخ نظام الدین رحمہ اللہ: الصريح:وهو كأنت طالق، ومطلقة، وطلقتك. وتقع واحدة رجعية ،وإن نوى الأكثر، أو الإبانة، أو لم ينو شيئا.
(الفتاوی الھندیۃ:1/354)
قال العلامۃ السرخسی رحمہ اللہ :وإذا طلقها واحدة في الطهر،أو في الحيض، أو بعد الجماع، فهو يملك الرجعة مادام في العدة.(المبسوط:6/19)
قال العلامۃ علاؤالدین الکاسانی رحمہ اللہ: لا يقع الطلاق بشيء من ألفاظ الكناية إلا بالنية، فإن كان قد نوى الطلاق ،يقع فيما بينه وبين الله تعالى، وإن كان لم ينو، لا يقع فيما بينه وبين الله تعالى. (بدائع الصنائع:3/106)
قال العلامۃ ابن نجیم  رحمہ اللہ :قوله:( لا تطلق بها إلا بنية ،أو دلالة الحال) أي لا تطلق بالكنايات قضاء إلا بإحدى هذين.(البحر الرائق شرح کنز الدقائق:3/322)
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب،فالحالات ثلاث: رضا ،وغضب ،ومذاكرة .والكنايات ثلاث :ما يحتمل الردنحو:اخرجی ..،أو ما يصلح للسب نحو: خلیۃ أو لا ولا ففي حالة الرضا تتوقف الأقسام على نية(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا.
قال العلامۃ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ: قوله: (خلية) بفتح الخاء المعجمة فعيلة بمعنى فاعلة: أي خالية إما عن النكاح، أو عن الخير : أي فهو عن الأول جواب، وعلى الثاني سب وشتم(قوله: )توقف الأولان) أي: ما يصلح ردا وجوابا وما يصلح سبا وجوابا. ولا يتوقف ما يتعين للجواب. بيان ذلك أن حالة الغضب تصلح للرد والتبعيد والسب والشتم كما تصلح للطلاق، وألفاظ الأولين يحتملان ذلك أيضا، فصار الحال في نفسه محتملا للطلاق وغيره، فإذا عنى به غيره فقد نوى ما يحتمله كلامه، ولا يكذبه الظاهر فيصدق في القضاء.(الدر المختار مع رد المحتار:3/296..301)

عرفان حنیف

دارالافتاء،جامعۃالرشید،کراچی

10جمادی الثانی/1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عرفان حنیف بن محمد حنیف

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب