021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
رمادا ٹاورپروجیکٹ میں شرکت کاحکم
77933شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

بحریہ ٹاون راولپنڈی میں ایک ہوٹل رمادا ۔ RAMADAکے نام  سے بن رہا ہے۔ یہ ایک انٹر نیشنل چین ہے جو کہ یہاں ہو ٹل شروع کر رہے ہیں ۔ اس کام میں جو پاکستانی کمپنی ملوث ہے اس کا نام ہے سکوائر نائن، ان لوگوں کی طرف سے آفر یہ ہے کہ آپ ایک ساتھ پچاس لاکھ روپے جمع کر وائیں تو اگلے ہی مہینے سے آپ کو 55 ہزار روپے کر کے ملنا شروع ہو جائیگا۔ یہ پروجیکٹ ساڑے چار سال کا ہے جس میں سے آدھا سال گزر چکا ہے ، باقی چار سال باقی ہیں۔

ساڑے چار سال مکمل ہونے کے بعد اگر میں ایگریمنٹ بر قرار رکھنا چاہوں تو مجھے ہر دن کے حساب سے کر ایہ ملے گا اور اگر میں ایگریمنٹ ختم کر کے نکلنا چاہوں تو مجھے 50لاکھ پر مزید 17 سے 22 فیصد اضافی رقم ملے گی۔یہ کاروبار جائز ہے یا نہیں ؟؟ شریعت کی روشنی میں راہنمائی فرماکر ماجور ہوں۔ جزاک اللہ خیرا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں رمادا RMA DA) (ٹاور کی تعمیری  پرو جیکٹ   میں  شرکت کرنے  کی جو  صورت  مذکور ہے ،کہ تعمیری  لاگت   کی مد میں رقم  جمع کرواتے ہی  اگلے  مہینے سے  منافع کے نام پر متعین  رقم  ملنی  شروع  ہوجاتی  ہے،  نیز ایگریمنٹ کا دورانیہ ختم ہونے پراصل  رقم  اور مزید نفع کی واپسی بھی طے  ہے ،تو اس تناظر  میں شرعی لحاظ سے یہ معاملہ  شرکت کا نہیں ہے  بلکہ  قرض   دیکر  سود  وصول کرنے کا  بنتا  ہے، کیونکہ گاہک کی اصل  رقم محفوظ  رہنے کی  یقین دہانی اور شرط کے ساتھ نفع دینے کی شرط لگائی گئی ہے،لہذا اس صورت میں کمپنی   گاہک  کی طرف سے جمع کردہ  رقم پر  جو اضافی  رقم ادا  کررہی  ہے ،  یہ قرض پر سود کی ادائیگی ہے، اوریہ   ایک سودی  معاملہ ہونے  کی بنا ء پرشرعا  ناجائز اور حرام  ہے ، اس کمپنی میں  اس طرح شراکت  داری جائز نہیں ، اس سے اجتناب لازم  ہے۔اگر کسی  نے شرکت کرلی  ہوتو معاملے  کو ختم کرنا  ضروری  ہوگا ۔ اصل رقم سے  زائد جو نفع  کمایا  ہے  وہ بغیر نیت  ثواب کے صدقہ کرنا  لازم ہے ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 166)

في الأشباه كل قرض جر نفعا حرام

قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به   ۔

البتہ اگرکمپنی   شرکت  مضاربت  کی  بنیاد  پر معاملہ کرے تو جواز کی  صورت نکل سکتی  ہے۔

مضاربت  کی بنیادی  شرائط یہ ہیں 1۔  رقم مضارب کے حوالے  کردی جائے  2 ۔کہ اصل رقم گارنٹیٹ ﴿مضمون  ﴾ نہ ہو کہ ہر حال میں اس کی واپسی  کمپنی کے ذمہ لازم ہو 3۔رب المال ﴿سرمایہ دینےوالے﴾ خود کاروبار کی عملی سرگرمیوں میں  شریک ہونے کی شرط  نہ لگائے 4۔ حاصل  ہونے والے  نفع میں دونوں  کی  شرکت   فیصدی طریقہ پر ہونفع کی کوئی  خاص مقدار کسی کے لئے  مخصوص نہ ہو 5۔ اگر نقصان  ہوجائےتو دیکھا جائے  اس سے پہلے اس تجار  ت میں اگرکوئی  نفع  حاصل ہوا  ہوتو  نقصان کی تلافی  اس سے کی جائے گی، اگر  ابھی نفع نہیں ہوا یا نفع سے تلافی  نہیں  ہو پارہی    تو  نقصان   رب المال یعنی  سرمایہ  فراہم کرنے   والے کے ذمہ  ہوگا۔

حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 200)
قال: "المضاربة عقد على الشركة بمال من أحد الجانبين" ومراده الشركة في الربح وهو يستحق بالمال من أحد الجانبين "والعمل من الجانب الآخر" ولا مضاربة بدونها؛ ألا ترى أن الربح لو شرط كله لرب المال كان بضاعة، ولو شرط جميعه للمضارب كان قرضا.الی قولہ ۰۰۰قال: "ولا بد أن يكون المال مسلما إلى المضارب ولا يد لرب المال فيه" لأن المال أمانة في يده فلا بد من التسليم إليه، وهذا بخلاف الشركة لأن المال في المضاربة من أحد الجانبين والعمل من الجانب الآخر، فلا بد من أن يخلص المال للعامل ليتمكن من التصرف فيه.
الی قولہ ۰۰۰قال: "ومن شرطها أن يكون الربح بينهما مشاعا لا يستحق أحدهما دراهم مسماة" من الربح لأن شرط ذلك يقطع الشركة بينهما ولا بد منها كما في عقد الشركة.     

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشید    کراچی

  یکم ربیع الاول١۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب