یکم ذی الحجہ کے بعدبال اور ناخن نہ کاٹنا جس طرح قربانی کرنے والے کے لئے مستحب ہے، کیاحج تمتع کرنے والا جب ۸ ذی الحجہ کو احرام باندھتا ہے تو اس کے لئے بھی نہ کا ٹنا مستحب ہے یا کاٹنا مستحب ہے؟
۲۔ قربانی کے جانور کا دودھ وغیرہ منافع استعمال کرنا اس آدمی کے لئے جائز ہے جو اس جانور وغیرہ کو چارہ وغیرہ دیتا ہے اور اس کا گزر باہر چرنے پر نہ ہو،جیسا کہ احسن الفتاوی ج۷ص۴۷۸ کتاب الاضحیہ و العقیقہ میں اس کے منافع دودھ وغیرہ کے استعمال کو جائز قراردیا ہے۔
اب پوچھنا یہ ہےکہ جب جائز ہے تو اکثر لوگ چونکہ قربانی کے جانور کو گھر پر ہی چارہ وغیرہ دیتے ہیں تو کیا اس مسئلے کو اسی طرح بیان کریں جس میں اس بات کا خطرہ ہے کہ ہر شخص اس کے دودھ وغیرہ کو استعمال کرے گا جس سے جانور کمزر ہوجائےگا یا اس طرح بیان کرے کہ قربانی کے جانور کے منافع استعمال کرنا جائز نہیں ہے؟
تفصیلی اور مدلل جواب دے کر تشفی فر مائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
۱۔یکم ذی الحجہ سے قربانی ہونے تک جسم کے زائد بال یا ناخن نہ کاٹنے کا استحباب صرف عید کی قربا نی کے ساتھ خاص ہے۔ حج تمتع کی قربانی چونکہ دم شکر ہے جو ایام حج میں عمرہ اور حج کے ایک ساتھ ادائیگی کے بعد بطور شکرانہ واجب ہوتی ہے اس لئے اس کے لئے بال یا ناخن نہ کاٹنا مستحب نہیں بلکہ ایسی صورت میں حج تمتع کرنے والے کے لئے۸ ذی الحجہ کواحرام باندھنے سے پہلے بال ،ناخن کاٹنا ہی مستحب ہے، البتہ اگر حج تمتع کرنے والے پر عید کی قربانی بھی واجب ہو تو ایسی صورت میں اس کے لئے بھی نہ کاٹنا مستحب ہوگا۔
واضح رہے کہ بال یا ناخن نہ کاٹنے کا یہ استحبابی حکم صرف اس صورت میں ہے جبکہ یکم ذی الحجہ سے قربانی ہونے تک بال یا ناخن نہ کاٹنے پر چالیس دن کر عرصہ نہ گزرنے پائے ورنہ بال ، ناخن کاٹنا لازم ہوجائے گا اور تاخیر پر گناہ ہوگا۔
۲۔احسن الفتاوی میں اس مقام پر تین صورتیں ذکر کی گئیں ہیں جن میں سے تیسری صورت[جس کے بارے میں آپ نےپوچھا ہے] اختلاف کا ذکر ہے اور ساتھ ہی عربی عبارت میں احتیاط اسی میں بتلائی گئی ہے کہ ایسے جانور کے منافع استعمال نہ کئے جائیں۔
بہر حال مسئلہ میں اختلاف اور احتیاط کا پہلو بھی مذکور ہے لہذا عمل کے لئے احتیاط کا پہلو ہی اختیار کرنا چاھیئے۔
حوالہ جات
عن ام سلمۃرضی اللہ عنہا قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:اذادخل العشرواراد بعضکم ان یضحی فلا یمسن من شعرہ وبشرہ شیئا وفی روایۃفلا یاخذن شعرا ولا یقلمن ظفرا وفی روایۃمنرای ھلال ذی الحجۃ وارادان یضحی فلا یاخذن من شعرہ ولا من اظفارہ رواہ مسلم (المشکوۃج۲ص۱۲۷)
وفی غنیۃالناسک:فاذااراد المتمتع وکذاالمکی ان یحرم بالحج یاتی بما سبق لہ فی الاحرام من ازالۃ التفث والاغتسال والتطیب وغیر ذلک اویکفی بالاغتسال ان لم یحل من عمرتہ[ص ۲۱۵]
وفی الشامیۃ:وماورد فی صحیح مسلم ۔۔۔۔۔۔۔فھذا محمول علی الندب دون الوجوب بالاجماع۔۔۔۔۔۔۔۔فیکون مستحبا الا ان استلزم الزیادۃ علی وقت اباحۃالتاخیر ونہایتہ مادون الاربعین فلا یباح فوقہا[ج۲ص۱۹۶)