021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گذشتہ سالوں کی زکوۃ ادا کرنے کا طریقہ
53098زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

کیا فر ماتے ہیں علمائے دین بیچ اس مسئلے کے کہ مسمی ندیم احمد کے پاس ۱۰۲۴۷ تولا سونا موجود ہے، جس کا وزن ۱۱۹۹۰۰گرام ہے، اس سونے پر ۱۹۹۴ء تا ۲۰۱۰ء واجب الاداء زکوۃ شرعی ادا نہیں کی گئی، مسمی ندیم احمد ۲۰۱۰ء تا ۲۰۱۳ء مبلغ ۶۵۰۰۰۰[چھے لاکھ پچاس ہزار] روپے کا مقروض رہا ہے، مندرجہ بالا قرضہ ۲۰۱۴ءتا ۲۰۱۴ء کے عرصہ میں کم ہو کر ۳۲۰۰۰۰[تین لاکھ بیس ہزار] روپے رہ گیا ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں میری رہنمائی کی جائے کہ مجھ پر کتنی زکوۃ شرعی واجب الاداءہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

١۹۹۴ء تا۲۰١۰ کی زکوة ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سونے کی مذکورہ مقدار کی موجودہ مالیت سے ،پہلے سال١۹۹۴ء کی زکوة ادا کر لیں، اس کے بعد جو رقم بچے اس سے دوسرے سال ۱۹۹۵ءکی زکوة ادا کی جائے، پھر اس کے بعد جو رقم باقی بچے، اس سے تیسرے سال کی زکوة ادا کی جائے۔ حاصل یہ کہ ہرآئندہ سال کی زکوة ادا کرنے کے لئے گذشتہ سال کی زکوة منہا کی جائے گی۔ البتہ اگر کسی موقع پر گذشتہ سالوں کی زکوة منہا کرتےکرتے باقی بچ جانے والی رقم مقدار نصاب سے کم رہ جائے تو ایسی صورت میں آئندہ سال کی زکوة لازم نہ ہوگی۔ یہ بات بھی واضح رہنی چاہئے کہ سوال میں مذکور گذشتہ سالوں کی مدت میں سونے کی مذکورہ مقدار کے ساتھ آپ جس قدر نقدی کے مالک رہے ہیں، ان گذشتہ سالوں کی زکوة ادا کرنے میں سونے کی مالیت کے ساتھ اس کو بھی شامل کیا جائے گا۔ باقی۲۰۱۰ تا ۲۰۱۳ کے دورانیہ میں آپ جس قدر رقم کے مقروض رہے،اگر ان سالوں میں اس سونے اور اس کے ساتھ موجود نقدی وغیرہ کی مالیت ﴿گذشتہ سالوں کی زکوة منہا کرنے کے بعد﴾ نصاب زکوة سے کم بچ جاتی ہو یا نصاب سے کم تو نہ ہو لیکن ان سالوں کے قرضوں کو منہا کرنے کےبعد قدر نصاب سے کم مال بچتا ہو تو ان دونوں صورتوں میں۲۰١۰ء تا۲۰١۳ء کی زکوة لازم نہ ہوگی۔البتہ اگر قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد بھی مال بقدر نصاب موجود تھا یا چند سال تو بقدر نصاب نہ تھا لیکن بعد میں قرضے کم ہونے کی وجہ سے چند سال بقدر نصاب رہا توان دونوں صورتوں میں ان سالوں کی زکوةلازم ہوگی، جس کا طریقہ ادائیگی وہی ہے جیساکہ جواب کے شروع میں لکھا جا چکا ہے۔
حوالہ جات
وفی درر الحکام شرح غررالاحکام لمحمد بن فراموز ﴿١۔١۸١﴾ وَالْخِلَافُ فِي زَكَاةِ الْمَالِ فَتُعْتَبَرُ الْقِيمَةُ وَقْتَ الْأَدَاءِ فِي زَكَاةِ الْمَالِ عَلَى قَوْلِهِمَا وَهُوَ الْأَظْهَرُ وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ يَوْمَ الْوُجُوبِ كَمَا فِي الْبُرْهَانِ وَقَالَ الْكَمَالُ وَالْخِلَافُ مَبْنِيٌّ عَلَى أَنَّ الْوَاجِبَ عِنْدَهُمَا جُزْءٌ مِنْ الْعَيْنِ وَلَهُ وِلَايَةُ مَنْعِهَاإلَى الْقِيمَةِ فَيُعْتَبَرُ يَوْمَ الْمَنْعِ كَمَا فِي مَنْعِ رَدِّ الْوَدِيعَةِ وَعِنْدَهُ،الْوَاجب احَدُهُمَا ابْتِدَاءً وَلِذَا يُجْبَرُ الْمُصَدِّقُ عَلَى قَبُولِهَا اهـ . وفی البدائع :[۳۔۳۹۴] وَبَيَانُ ذَلِكَ أَنَّهُ إذَا كَانَ لِرَجُلٍ مِائَتَا دِرْهَمٍ أَوْ عِشْرِينَ مِثْقَالٍ ذَهَبٍ فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ سَنَتَيْنِ يُزَكِّي السَّنَةَ الْأُولَى ، وَلَيْسَ عَلَيْهِ لِلسَّنَةِ الثَّانِيَةِ شَيْءٌ عِنْدَأَصْحَابِنَا الثَّلَاثَةِ .واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب