021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ملازم ڈرائیور کوکمائی اور نقصان میں شریک کرنا
53022اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے فاسد معاملات کا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام[کثراللہ سوادھم] درجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل سعودی عرب وغیرہ ملکوں میں کوئی شخص[ مثلازید] گاڑ ی خریدتا ہے اورڈرائیور [مثلا عمرو] کوچلانے کے لئے دےدیتا ہے کہ عمر اس کو چلائےاورجو کچھ کمائے وہ مالک [زید]اور ڈرائیور[عمر] کے درمیان مشترک ہوگی۔[مہینے کے اعتبارسے] اور اگر گاڑی کی ٹائرخراب ہوجائے یا ٹیوب خراب ہوجائے یا ۵۰۰ درہم سے کم کم نقصان ہوجائے تو یہ نقصان دونوں کے درمیان مشترک ہوگا اور اگر کوئی بڑی خرابی پیدا ہوجائے ، جیسے کہ انجن خراب ہوجائے وغیرہ تو اس کا خرچہ مالک اٹھائے گا اور اگر کوئی محالفہ ملے [یعنی ٹریفک کی پرچی وغیرہ] تو وہ ڈرائیور [عمر] پر ہوگی۔ تو اب مطلوب یہ ہے کہ ان شرائط پر یہ اشتراک جائزہے یا نہیں؟نیز عدم جواز کی صورت میں متبادل صورت کیا ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہ معاملہ در حقیقت اجارہ کا ہے لیکن مندرجہ ذیل وجوہ کی وجہ سے یہ صورت جائز نہیں: ۱۔مذکورہ صورت میں گاڑی کاڈرائیور اجیرخاص[مخصوص ملازم ]کے حکم میں ہے، جس کا شرعی حکم یہ ہے کہ کام کے دوران ایسے ملازم کے ہاتھ سے متعلقہ چیز مثلا گاڑی کا کوئی ایسا نقصان ہوجائے جس میں اس کے غفلت، لا پر واہی، بے ضابطگی کا دخل نہ ہو تو ایسےنقصان کا تاوان ایسے ملازم پر نہیں ہوتا۔ جبکہ سوال میں پوچھی گئی صورت میں بہر صورت ڈرائیور پر ٹائر ،ٹیوب کی خرابی کے نقصان کا ازالہ ڈالاگیاہے،جو اگرچہ مشترکہ طور پر ہی کیوں نہ ہو ،جائز نہیں۔یہی حکم محالفہ[ چالان] کا بھی ہے۔ البتہ جس نقصان میں ڈرائیورکی کو تاہی ، غفلت ، بے ضابطگی کا دخل ہو تو وہ یقینا ڈرائیور ہی پر لازم ہوگا۔ ۲۔اسی طرح مذکورہ صورت میںملازم [ڈرائیور]کی اجرت باقاعدہ متعین طور پر مقرر نہیں جبکہ اجارہ کے درست ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ملازم کی اجرت باقاعدہ نقدی کی معین مقدار کی صورت میں مقررہو۔ ۳۔اس معاملے کی خرابی اور ناجائز ہو نے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اس میں مالک نےملازم[ ڈرائیور] کی اجرت خود اس کی کمائی ہی سے مقررکی ہے جو شریعت میں قفیزطحان کے عنوان سے ممنوع اور ناجائز ہے۔ مذکورہ تین امور کی وجہ سے یہ معاملہ جائز نہیں بلکہ اجارہ فاسدہے جس کا شرعی حکم یہ ہے ایسی صورت میں ملازم [ڈرائیور ] کی حاصل کردہ تمام کمائی مالک کا حق ہے اور ڈرائیور صرف اجرت مثل ہی کا مستحق ہے یعنی جتنا عرصہ اس ملازم نےگاڑی چلائی ہے عموما اتنے عرصے کیلئے ایسی گاڑی ایک ملازم کتنی اجرت میں چلاتا ہے؟ اسی قدراجرت کا یہ ملازم بھی مستحق ہوگا، زیادہ کا نہیں۔ اس معاملے کی تصحیح کی صورت یہ ہو سکتی ہےکہ گاڑی کا مالک ڈرائیور کی ایک مناسب معین مقدار میںباقاعدہ اجرت طے کر دے اور جن نقصانات میں اس کے غفلت ، لاپرواہی ،بےضابطگی کا دخل نہ ہو وہ مالک پوراکرے گا اور جو نقصان ڈرائیور کی غفلت اور کوتاہی سے ہواہو اس کا ازالہ ڈرائیور پر ہو گا۔ اسی طرح اجرت کا کمائی میں سے ہی ہونا اجارہ کے معاملے کے اندر شرط نہ ہو بلکہ گاڑی کے مالک پر ملازم کی یہ متعین اجرت اداء کرنا لازم ہو خواہ گاڑی سے حاصل شدہ منافع سے اس کی ادائیگی کرے یا کسی اورجگہ سےکرے،نیز اس صورت میں اگر گاڑی سےمنافع حاصل نہ بھی ہوں تب بھی ملازم کو طے شدہ اجرت دینا مالک کے ذمہ لازم ہو گا۔ دوسری طرف اگر منافع بہت زیادہ حاصل ہوں تب بھی ملازم کے لئے طے شدہ اجرت سے زائد کے مطالبے کا حق نہ ہوگا۔
حوالہ جات
وفی الہندیۃ:وحکم اجیر الواحد انہ امین فی قولھم جمیعا حتی ان ماھلک من عملہ لا ضمان علیہ فیہ الا اذا خالف فیہ والخلاف ان یا مرہ بعمل فیعمل غیرہ فیضمن ماتولد منہ حینئذ ھکذا فی شرح الطحاوی '[ج۴،ص۵۰۰) وفیھا ایضا: ولو تکاری عبد ماذونا اوغیر ماذون بنصف مایکسبہ علی ھذہ الدابۃ فالاجارۃ فاسدۃولہ اجر مثلہ فیما عمل لہ الخ[ج۴،ص۴۴۵] وفیھا ایضا:والحیلۃ فی ذلک لمن اراد الجوازان یشترط صاحب الحنطۃ قفیزا من الدقیق الجید ولم یقل من ھذہ الحنطۃ او یشترط ربع ھذہ الحنطۃ من الدقیق ۔۔۔۔۔۔ثم اذاجاز یجوز ان یعطیہ ربع دقیق ھذہ الحنطۃ ان شاء کذا فی المحیط[ج۴،ص۴۴۴] وفی الرد مع الدر:[قولہ وکون الاجرۃ والمنفعۃ معلومتین]اماالاول فکقولہ بکذادراھم او دنانیر[ج۶،ص۶ شاملہ)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب