021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کے علاوہ دیگر الفاظ کا حکم
53086طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

مفتی صاحب عرض خدمت ہے کہ میں صوبہ پنجاب کا رہائشی ہوں،حافظ قرآن ہوں ،میں تراویح کے لئے رمضان شریف میں صوبہ بلوچستان کے علاقہ میں گیا ،ان لوگوں کے طور اطوار دیکھے، وہ بات بات پر[رن طلاق] کا جملہ استعمال کرتے تھے،جب میں نے ۲۵ روزتک تراویح سنالی تو وہ لوگ اصرار کرنے لگے کہ آپ عید کے بعد ہمارے ہاں واپس آنا، اگر آپ نہ آئے تو آپ کی رن طلاق ہوگی میں ان لوگوں سے تنگ آچکاتھا اور مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہااس رن طلاق جملہ سے بیوی کو طلاق ہوجاتی ہے، میں نے صوبہ بلوچستان سے جان چھڑانے کے لئے ان لوگوں کو ہاں کردی مگر عید کے بعد میں واپس نہ گیاتو اب آپ مہربانی کر کے قرآن و سنت کی روشنی میں اس مسئلہ کو حل فرمائیں کہ میرا گھر برباد ہونے سے بچ جائے؟ ۲۔اور اسی صوبہ بلوچستان میں میری ایک لڑکے سے لڑائی ہوگئی ،میں نے لڑکے سےکہا میں تیرے باپ کو بتاونگا، اگر نہ بتایا تو میری[رن طلاق] میں نے لڑکے کے باپ کو تقریبا دوسال کے عرصے کے بعد بتایا تو اب میرے لئے میری بیوی کے بارے میں کیا حکم ہوگا؟ ۳۔میرا اور میری بیوی کا جھگڑا ہورہاتھاتو میں نے اپنی ماں سے کہا کہ میری بیوی سے پوچھو کہ اگر مجھ سے تنگ ہے اپنے میکے چلی جائے ، مجھ سے فارغ ہے مگر میری امی کے پوچھنے سے پہلے ہی میری بیوی نے کہدیا کہ میں تجھ سے تنگ نہیں ،تیری عادتوں سے تنگ ہو ں۔ برائے مہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں میرا مسئلہ حل فر مالیں اور مجھے فتوی دیں ، میں بہت پریشان ہوں، میرے دو بچے ہیں ،میرا گھر برباد ہونے سے بچ جائے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۱۔آپ نے پہلے سوال میں لکھا ہے کہ مجھے رن طلاق کے جملہ سے طلاق واقع ہونا معلوم نہ تھا جبکہ دوسرے سوال میں آپ کا لڑکے سے یہ کہناکہ اگر[ تیرے باپ کو ]نہیںبتا یا تو میری رن طلاق۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جملہ سے طلاق واقع ہونے کا علم آپ کو تھا، لہذا جب تک آپ اس تعارض کی معقول وضاحت نہیں کردیتے اس وقت تک اس پہلی صورت کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔ دوسرے سوال میں لڑائی کے موقع پر آپ کا لڑکے سے یہ کہنا کہ اگر[تیرے باپ کو] نہ بتایا تو میری رن طلاق اس کا حکم یہ ہے کہ ان الفاظ کےبعد اس لڑکے کے والد سے عام عادت کے مطابق پہلی ملاقات پر اگر آپ نے اس لڑکے کی شکایت نہیں کی تواس سے آپ کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوچکی ہے،باقی دوسال کے بعدبتانے کا اعتبار نہیں ،اس لئے کہ عرف میں اتنی طویل مدت کے بعد بتانے کو شکایت شمار ہی نہیں کیا جاتا۔ ۳۔تیسرے سوال میں چونکہ آپ نے مطلق تنگ ہونے کو شرط ٹہرایاتھا اور اس سے آپ کا مقصد اور غرض صرف ذات سے تنگ ہونا نہ تھا اس لئے بیوی کی اس تفصیل سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ لہذا اس صورت میں بھی آپ کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوچکی ہے۔ حاصل یہ کہ آپ کی بیوی پر کل دو طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اور اب آپ کے پاس صرف ایک طلاق دینے ہی کا حق باقی ہے، لہذا اب آپ اپنی مطلقہ کوباقاعدہ نیا شرعی نکاح کر کے ہی رکھ سکتے ہیں اور آئندہ صرف ایک طلاق دینے سے ہی آپ کی بیوی آپ پر ہمیشہ کے لئے حرام ہوجائے گی۔
حوالہ جات
قَالَ لِأَخِي امْرَأَتِهِ : إنْ لَمْ تَدْخُلْ بَيْتِي كَمَا كُنْت فَامْرَأَتِي طَالِقٌ فَإِنْ كَانَ بَيْنَهُمَا كَلَامٌ يَدُلُّ عَلَى الْفَوْرِ فَهُوَ عَلَى الْفَوْرِ لِأَنَّ الْحَالَ أَوْجَبَ التَّقْيِيدَ وَإِلَّا كَانَتْ الْيَمِينُ عَلَى الْأَبَدِ وَتَقَعُ الْيَمِينُ عَلَى الدُّخُولِ الْمُعْتَادِ قَبْلَ الْيَمِينِ حَتَّى لَوْ امْتَنَعَ الْأَخُ مَرَّةً كَمَا كَانَ مُعْتَادًا يَحْنَثُ كَذَا فِي خِزَانَةِ الْمُفْتِينَ[الھندیہ ج۱ ،ص۴۲۹)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب