021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
رشتہ داروں کی بدسلوکی کا حکم
53180جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کیا فر ماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص[ج]گذشتہ۴۰ سال سے اپنے بڑے بھائی ،بہنوں کی زیادتیوں کا شکار ہےاب چاہتا ہے کہ بڑےبھائی کو تھانے کچہری کی ہوا لگواکر کچھ سبق سکھائے۔[ج ]کے اتنے تعلقات ہیں کہ اگر وہ کوئی اقدام کرے تو اسکےبڑےبھائی بہن اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے ۔بڑے بھائ بہنوں کی زیادتیوں کی کچھ تفصیل درج ذیل ہےمثلا ج کو اسکول کی چھٹیوں میں کام پرلگادینا، بلاوجہ دوران تعلیم ایک اچھے اسکول سے نکال کرگھر سے دور ایک عام اسکول میں داخل کر دینا،میٹرک کے بعدبجلی وغیرہ کام کرنے کی صورت میں بڑےبھائی کا ساری آمدنی لے لینا اورکوشش کر کے [ج] کی نوکری ختم کردینا ،ج پر چوری کے الزامات لگانا اور خاندان میں اسے ذلیل کرنا جبکہ ج نے اپنی انتہائی مروت اور خاندانی عزت وشرافت کی وجہ سے برسوں اسے برداشت کیا بلکہ ان کے ساتھ اچھا برتاو کیااور ضرورت کے وقت اپنی خدمات پیش کرتا رہابلکہ ان کے بچوں کے پڑھانے ان کے گھر جاتا اور ان کے اسکول سےمتعلقہ تمام اموراورمسائل حل کرتا۔ حاصل یہ کہ[ ج ]نماز ،روزے کا پابنداچھا انسان ہے اور خلوص رکھنے والا شخص ہے ،لیکن اس کے بھائی بہن اب 60 سال کی عمر میں بھی اس کو چین سے نہیں بیٹھنے نہیں دے رہے ،شرعی نقطہ نظرسے ان خلاف کس حد تک کاروائی کی جاسکتی ہے؟اللہ آپ کو جزائے خیر عطافرمائے ،آمین۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دین اسلام ایک مکمل،آفاقی وابدی دین اور مذہب ہےاور ایک نہایت ہمہ گیر اور جامع ضابطہ حیات ہے جو مذہب کے ساتھ معاشرے، دین کے ساتھ دنیا کے ہر پہلو سے متعلق رہنمائی کرتا ہے اور دونوں کی اصلاح وفلاح کامل کی ضمانت سے مشروط احکام و قوانین کی رہنمائی کرتا ہے۔ بالخصوص آخری دونوں شعبے یعنی حسن معاملہ اور حسن معاشرت، یہ دونوں دین اسلام کے ایسےضروری اوراہم شعبے ہیں کہ ان کے بغیر ایک مسلمان کا دین مکمل ہی نہیں ہو سکتا بلکہ انسانیت کی تکمیل بھی اس کے بغیر نہیں ہوتی اورنہ ہی کوئی انسانی معاشرہ ان دونوں کے بغیرامن وسکون،صلاح وفلاح کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن وحدیث میں ان دونوں شعبوں سے متعلق احکام نہایت تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں اور ان پر عمل پیرا ہونے کی مختلف پیرایوں میں نہایت کثرت اور شدت کے ساتھ ترغیب وترھیب وارد ہوئی ہے اور اہل علم نے بھی ہمیشہ سے ان دونوں شعبوں کو خصوصیت کے ساتھ اپنی توجہات کا مرکز بنائے رکھا۔ اس دنیا کے معاشرے کی اصلاح وفلاح در حقیقت ایک دوسرے کے حقوق کے تحفظ اورآپس کے تعلقات اور قرابتوں کے پاسداری پر موقوف ہے اور یہ دونوں باتیں حسن معاملہ اور حسن معاشرہ پر موقوف ہیں۔ حسن معاملہ کا مطلب یہ ہے کہ آپس کے مالی حقوق و معاملات ﴿لین دین﴾ کو نہایت صاف شفاف﴿منصفانہ، دیانتدارانہ﴾ طریقے سے شریعت کے عین مطابق بجالانااوراس میں دوسروں کےحقوق کی ادائیگی میں فیاضی اور وسعت ظرفی کا رویہ اختیار کرنا جبکہ اپنے حقوق کی وصولی میں رواداری ،چشم پوشی ،درگذر کا پہلو اختیار کرنا اور یہی چیز ایک انسان کو مکمل انسان بنانے کے ساتھ ساتھ اسے ایک اعلی درجے کا متقی و پرہیزگار مسلمان بھی بناتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ بھی معاملات میں یہی تھا، چنانچہ ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے طلب حق میں سخت لہجے میں تیز گفتگو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ اس کی سختی کا جواب نرمی سے دیا بلکہ اس کو اس کے حق سے بڑھا کر زیادہ بھی دیا اور فرمایا کہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو ادائے حقوق میں سب سے بہتراور اچھا ہو﴿متفق علیہ﴾ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادائے حقوق میں نرمی ،سہولت اور درگذر برتنے والے کو اپنی خصوصی دعا سے بھی نوازا ہے چنانچہ ارشاد نبوی ہے کہ اللہ تعالی ایسے شخص پر خصوصی مہربانی فرمائے جو خرید و فروخت اور ادائے حقوق میں نرمی اور درگذر کا معاملہ کرے ﴿بخاری﴾ کتنی خوش نصیب ی کی بات ہے کہ توڑی سی ہمت اور کوشش سے انسان آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کی خصوصی دعا کا مستحق بن جائے۔ حسن معاشرت کا مطلب یہ ہے کہ تمام لوگوں کے ساتھ فرق مراتب کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کے حیثیت اور مرتبہ کے مطابق برتاو کیا جائے اور اپنے کسی بھی قول اور فعل سے کسی کو تکلیف نہ پہنچنے دی جائے نیز حسن سلوک اور اچھا بر تاو محض رسمی ، بدلہ یا احسان چکانے یا کرنے کے لئے نہ ہو بلکہ خا لصة حق شناسی اور حق کی ادائیگی کے مخلصانہ جذبہ کی بنیاد پر ہو یعنی اپنے حقوق کے وصولی کے انتظار اور امید کے بغیر ہی دوسروں کے ساتھ حن معاشرت ﴿اچھا برتاو﴾کرنا،چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے کہ بدلہ چکانے کی غرض سے صلہ رحمی کرنے والا کامل صلہ رحمی کرنے والا نہیں بلکہ حقیقی صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جو رشتہ اور قرابت کے ختم کئے جانے پر بھی رشتہ اور تعلق جوڑے اور قائم رکھے ﴿بخاری و مشکوة﴾ نیز نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے کہ جو تجھ سے ناطہ توڑے تو اس سے جوڑ اور جو تجھ کو محروم رکھے تو اس کو دے اور جو تجھ سے برا سلوک کرے تو اس سے اچھا سلوک کر﴿جامع صغیر و اعلام النبوة للماوردی﴾ آج کے دور میں انہی دونوں شعبوں﴿ حسن معاملہ اور حسن معاشرت﴾ میں غفلت اورکوتاہی برتنے ہی کی وجہ سے افراد ،خاندانوں،محلوں اورعلاقوں کی سطح پر مختلف نوعیت کے اختلافات اور تنازعات جنم لے رہے ہیں۔ سوال میں مذکور تفصیل کے مطابق﴿ج﴾ جیساکہ ماشا ءاللہ اب تک نماز روزہ وغیرہ کا اہتمام کرتا رہاہےاور حسن معاشرت کو آج تک نبھاتا رہاہے لہذا ایک مسلمان اورمتبع شریعت ہونے کے ناطے اسے آئندہ بھی ان دونوں شعبوں کو نہایت مضبوطی سے تھام لینا چاہئے بلکہ ان میں مزید ترقی اور بہتری لانے کی کوشش کرتا رہےمثلا ایسے رشتہ داروں کے ساتھ دعا ،سلام ،ملنے جلنے کا معمول بنائے اور موقع بموقع ہدایا اور تحائف دینے کا معمول بنائے کیونکہ یہ دونوں چیزیں دلوں کو نرم کرنے والی اورمحبت پیدا کرنے والی اور بڑھانے والی ہیں نیز اس کے ساتھ ان کی اصلاح کی دعائیں بھی مانگتا رہے۔نیز ایسے مسائل اور تنازعات کے حل کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ خاندانی سطح پر آپس میں مل بیٹھ کر ایسے مسائل کا حل نکالاجائے ، ان کو بالخصوص بڑے بھائی یا بہنوں کے ساتھ تھانہ کچہری والا معا ملہ کرنا نہایت قبیح اور نازیبا عمل ہے جس سے اجتناب ہی کرنا چاہئے۔ البتہ اگر ناحق تنگ کرنے والے اس سے بھی باز نہ آئیں اور مخالفت اتنی بڑھ جائے کہ اپنے دنیوی معاملات اور دینی عبادات بھی متاثر ہونے لگیں تو ایسے موقع پر محض دفع ضرر اور دفع شر کی غرض سے اور اپنے دین کی حفاظت کی غرض سے نہایت ضروری اور واجبی قانونی چارہ جوئی کی گنجائش ہے، لیکن بہتر بہر حال یہی ہے کہ اس حال میں بھی صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے اور کسی بھی قسم کے اقدام سے اجتناب کرے کیونکہ ایسی حالت میں عزیمت اور اصل حکم شرعی یہی ہے کہ صبر و تحمل سے کام لیا جائے جو باعث اجر وثواب بھی ہے جبکہ گنجائش پر عمل صرف ایک رخصت ہے جس سے اخروی اجر و ثواب تو یقینا ختم ہو جائے گا اور ہو سکتا ہے دنیوی لحاظ سے بھی بجائے سکون واطمینان کے پریشانی مزید بڑھ جائے۔ اس موقع پر ﴿ج﴾ کی حالت سے متعلق ایک حدیث مبارک نقل کر نا مناسب ہے،جس میں ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے﴿ جن کو اپنے بعض رشتہ داروں کی طرف سے اسی طرح کی بد سلو کی کا سا منا تھا﴾ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے بعض رشتہ داروں کی طرف سے حسن معاشرت کے بدلے بدسلوکی کی شکایت کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے طریقے﴿حسن معاشرت﴾پر قائم رہنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ ناحق تکلیف پہنچانے والوں کیلئے عذاب اخروی کی تخویف اور دھمکی اور تکلیف برداشت کرنے والے صحابی کیلئے اللہ کی طرف سے خصوصی معاون ومددگار﴿غیبی فرشتہ﴾ کی تاییدونصرت کی نوید بھی سنائی۔ ﴿حدیث مبارکہ کا تر جمہ ملاحظہ ہو﴾ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص ﴿صحابی رضی اللہ عنہ﴾ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول میرے کچھ رشتہ دارہیں جن سے میں صلہ رحمی کرتاہوں جبکہ وہ مجھ سے قطع تعلق کرتے ہیں اور میں ان سے حسن سلوک ﴿اچھا برتاو﴾ کرتاہوں جبکہ وہ مجھ سے بد سلوکی کرتے ہیںاور میں ان سے درگذر ﴿چشم پوشی ﴾ اور برداشت والا معاملہ کرتاہوں جبکہ وہ مجھ سے جہالت اور اجڈپن سے پیش آتے ہیں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر واقعة آپ کی حالت ایسی ہی ہے جیسا کہ آپ بیان کر رہے ہیں توبیشک تو ان کو﴿ جہنم کی﴾ راک پھکوارہا ہے﴿یعنی تو ان کی ناحق تکلیف برداشت کر کے ان کو جہنم کا مستحق ٹہرا رہا ہے﴾اور ان کے مقابلے کے لئے اللہ کی طرف سے تیرے ساتھ ایک خصوصی مددگار﴿ فرشتہ﴾ رہے گا﴿ جو تیری مدد کرتا رہے گا﴾ جب تک کہ تو اپنی اس حالت پر برقرار رہے گا۔ ﴿ اس حدیث کو مشکوة شریف میں صحیح مسلم سے نقل کیا گیا ہے﴾ کیا [ج] کے لئے یہ بشارت کافی اور باعث تسلی نہیں کہ استفتاء میں مذکور تفصیل کی صداقت کی بناء پر اسے زبان رسالت سے ایک غیبی فرشتہ کی تایید و نصرت کی نوید مل رہی ہے۔[ج] کے لئے بڑی ہی محرومی اور بد قسمتی اور ناعاقبت اندیشی کی بات ہو گی کہ وہ اس عظیم نوید کو محض اپنے انتقامی جذبات کی تسکین کے خاطر کوئی اقدام کرکے ضائع کر دے بالخصوص جبکہ وہ زندگی کا اکثر حصہ اچھا گزار بھی چکا ہے اور اللہ تعالی کے نزدیک اعمال کے خاتمہ کا ہی اعتبار ہے ،اور آخر عمر میں زیادہ تحمل اوربرداشت اورنیکی کی ضرورت ہے تاکہ سابقہ محنت ناکارہ نہ ہوجائے۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی مرضی کے مطابق بنائے، آمین۔
حوالہ جات
۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب