021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بستی میں نماز جمعہ
53135نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

ہمارے علاقے ضلع زیڑوک میں پہاڑوں کےدرمیان ایک وادی ہے جوتقریباً پانچ کلومیڑ لمباہے مذکورہ وادی کے آخری کنارے میں تنگ نامی مقام ہے اس مقام میں دوبستیاں آبادہیں جوایک دوسرے سے تقریباً تین سومیٹرکے فاصلے پرہیں ،ان دونوں بستیوں کےدرمیان ایک بڑانالہ اورکچھ زرعی زمینیں فاصل ہیں دونوں بستیوں کے الگ الگ نام ،الگ الگ مسجدیں اورالگ الگ قبرستان ہیں البتہ اسکول ایک ہے۔ بستیوں میں سےایک کانام غوزڑہے جوپندرہ دکانوں اورچھ سوپچاس آبادی پرمشتمل ہے ،دوسرےگاؤں کانام نصیری ہے جوآٹھ دوکانوں اورچھ سوبہاسٹھ آبادی پر مشتمل ہے،مذکورہ بستیوں سے کچھ فاصلے پر ایک مدرسہ اورساتھ متصل ایک مسجدہےجوکہ غوزڑ گاؤں سے چارسوچالیس میٹر فاصلہ پرہےاوردرمیان میں بنجرزمین اورچرگاہ فاصل ہے جبکہ دوسرےگاؤں نصیری سے بھی سات سو چالیس میٹر فاصلہ پرہے درمیان میں بنجرزمین اورایک بڑا نالی واقع ہے۔دونوں بستیوں کے لوگ استفتاءھذاکے ذریعے شرعی حکم معلوم کرناچاہتے ہیں کہ اسی مدرسے والی مسجدمیں احناف کے مذہب کے مطابق نمازِجمعہ درست ہےیانہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صحت جمعہ کے لئے ضروری ہے کہ شہر یا قصبہ یا قصبہ نما بڑا گاؤںہو ،اور وہاں لوگوں کی اکثر وبیشتر ضروریات زندگی میسر ہوںاور وہ گاؤں آس پاس کے علاقہ کے لئے مرکز کی حیثیت رکھتا ہو، تو جمعہ درست ہے ورنہ نہیں ،صورت مذکورہ میں مدرسہ والی مسجد ایسی دو بستیوں کے مضافات میں واقع ہے جوکہ اسما ً اور عرفاً الگ الگ ہیں اور کسی ایک میں بھی نما ز جمعہ کی شرائط پوری نہیں ،لہذا مدرسہ والی مسجد میں نماز جمعہ کا قیا م درست نہیں
حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق للنسفي (ج 4 / ص 351): قوله (شرط أدائها المصر) أي شرط صحتها أن تؤدى في مصر حتى لا تصح في قرية ولا مفازة لقول علي رضي الله عنه: لا جمعة ولا تشريق ولاصلاة فطر ولا أضحى إلا في مصر جامع أو في مدينة عظيمة. روا ہ ابن أبي شيبة وصححه ابن حزم، وكفى بقوله قدوة وإماما۔۔۔۔۔۔(وهو كل موضع له أمير وقاض ينفذ الاحكام ويقيم الحدود) أي حد المصر المذكور هو ظاهر المذهب كما ذكره الامام السرخسي. ۔۔۔۔۔ثانيهما ماعزوه لابي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولهارساتيق وفيها وال يقدر على انصاف المظلوم من الظالم بحشمة وعلمه أوعلم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث. قال في البدائع: وهوالاصح وتبعه الشارح وهوأخص ما في المختصر۔۔۔۔۔۔۔. وفي الخلاصة: الخليفة إذاسافر وهو في القرى ليس لهأن يجمع بالناس ولو مر بمصر من أمصارولايته فجمع بها وهو مسافر جاز.۔۔۔۔۔۔وفي المضمرات ۔۔۔۔ وأما السنة فعلى القرى الكبيرة والمستجمعة للشرائط اه‍.وفيه نظر لانها فرض على من هو من توابع الامصار لا يجوز التخلف عنها، وأما القرى فإن أراد الصلاة فيها فغير صحيحة على المذهب، وإن أراد تكلفهم وذهابهم إلى المصر فممكن لكنه بعيد، وأغرب من هذا مافي القنية من أنه يلزم حضور الجمعة في القرى ويعمل بقول علي رضي الله عنه: إياك وما يسبق إلى القلوب إنكاره وإن كان عندك اعتذاره،فليس كل سامع نكرا تطيق أن تسمعه عذرا اه‍. فالمذهب عدم صحتها في القرى فضلا عن لزومها. وفي التجنيس: ولا تجب الجمعة على أهل القرى وإن كانوا قريبا من المصر لان الجمعة إنما تجب على أهل الامصار۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ارشد بنگش صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب