021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کمیشن پر چندہ یا چرم قربانی جمع کر نے کا حکم
53320اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے فاسد معاملات کا بیان

سوال

: ایک دینی ادارہ اپنے ملازمین سے چرم قربانی جمع کر نے کے لئے اس طرح معاملہ کرتاہے کہ وہ ملازمین لوگوں سے چرم جمع کر کے اس ادارہ تک پہنچائیں اور ادارہ تک پہنچانے تک کے سارے مصارف [گاڑی کا کرایہ، چٹائی و ٹوکری وغیرہ ]ملازمین کے ذمہ ہے اور ادارہ ہر ملازم کے لئے اس کی جمع کردہ کھالوں کے تناسب سےاجرت مقرر کرتاہے۔ مثلا کھال کا بیس فیصد جتنا بنتا ہے اس قدراجرت ادارہ ملازم کو دے گا ۔ تو کیا اس طرح معا ملہ کر نا شر عا درست ہے؟ واضح رہے کہ کمیشن پر چندہ اور دلال کی اجرت کے عدم جواز کی دو وجہیں ذکر کی جاتی ہیں ۱۔ ایسی صورت میں مستاجر اجرت کی ادائیگی پر قادر بقدرۃ الغیر ہے حالانکہ اجارہ کی صحت کے لئے مستاجر کا اجرت کی ادائیگی پر بنفسہ قدر ہونا شرط ہے۔ ۲۔یہ اجرت من العمل ہے جو قفیز طحان والی روایت کے پیش نظر جائز نہیں۔ مذکورہ دینی ادارے کے درج بالا معاملہ میں یہ دونوں وجہیں نہیں پائی جاتی، کیو نکہ ادارہ ملازم کو اجرت، کھالوں یا ان کی قیمت سے ادائیگی کی شرط نہیں لگاتا بلکہ کھالوں کے فیصد کا ذکرصرف تعین اجرت کے لئے ہوتا ہے، اجرت ادارہ اپنے مرکزی فنڈ سے ادا کرتا ہے۔مفصل دلائل سے درج بالا معاملہ کی شرعی حیثیت واضح فر ماکر عند اللہ ماجور ہوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرچہ کمیشن پر چندہ یا کھالیں جمع کرنایا دلالی پراجرت لینا ، ان دونوں ہی معاملات میں تقریبا عدم جواز کی درج ذیل وجوہ پائی جاتی ہیں مگر دلالی کی اجرت کی اجرت کو فقہاء رحمہم اللہ نے کثرت تعامل اور حاجۃ الناس کی وجہ سےخلاف قیاس جائز قرار دیا ہے لہذا کمیشن پر چندہ یا کھالیں جمع کرنے کا معاملہ قیاس اور قواعد کے موافق بدستور ناجائزہے۔ عدم جواز کی وجوہ: ۱۔اجیر کا بنفسہ قادر علی العمل نہ ہو نا ، جبکہ صحت اجارہ کے لئے بوقت عقد اجیر کا بنفسہ قادر علی العمل ہونا شرط ہے اور دلالی اور کمیشن پر چندہ یا قربانی کی کھالیں وغیرہ جمع کرنے کے معاملے میں اجیر کا عمل دوسرں[مثلا خریداروں اور چندہ دینے والوں ] کے عمل پر موقوف ہے اور قادر بقدرۃ الغیر بحکم عاجز ہوتاہے۔ ۲۔جہالت منفعت مستاجرہ،اگر اجیر کا عمل، معاملہ کرنے یا وصولی کرنے کے سلسلے میں لوگوں سے ملنا اور اس بارےمیں جدوجہد کرنا مثلا ترغیب وتشہیر وغیرہ ہو تو بھی چونکہ یہ طے اور مقرر نہیں کہ اجیر روزانہ کتنے لوگوں سے ملے گا اس لئے اصل معقود علیہ[ منفعت اجیر] مجہول ہے۔ غرض یہ کہ اجیر شرعا، نہ تو نفس عقد یا وصولی پر بنفسہ قادر ہے اور نہ ہی اس بارے میں اس کی جد وجہد ،محدود و متعین ہے بلکہ کلیۃ مجہول ہے۔ ۳۔اجرت کا اجیر ہی کے عمل سے ہونا ،جوکہ حدیث قفیز طحان کی وجہ سے ممنوع ہے اور علت اس ممانعت کی مستاجر کا بوقت عقد ادائے اجرت پر بنفسہ قادر نہ ہونا ہے جبکہ حسب تصریح فقہاء رحمہم اللہ بوقت عقد مستاجر کا ادائے اجرت پر بنفسہ قادر ہونا صحت اجارہ کے لئے شرط ہے۔ [تنبیہ :سوال میں قفیز طحان کی ممانعت کی علت کو قفیز طحان کے مقابل مستقل ایک وجہ کے طور پر لکھا گیا ہے ، جو صحیح نہیں] ۴۔جہالت اجرت:کمیشن پر چندہ یا کھالیں جمع کرنے کے معاملہ میں ایک مزید اضافی وجہ فساد بھی ہے جو جہالت اجرت ہے۔ چونکہ یہ بھی معلوم اورمتعین نہیں کہ کتنی وصولی ہوگی لہذا بطوراجرت اس کا فیصدی حصہ [ مثلا بیس یا دس فیصد ]بھی مجہول ہےبلکہ موہوم ہے اس لئے کہ ممکن ہے کہ کم وقت میں زیادہ وصولی ہو اور یہ بہی ممکن ہے کہ زیادہ وقت میں کم وصولی ہو یاہوہی نہیں۔ لہذا سوال میں مذکور تفصیل کے مطابق کمیشن کے معاملے میں اگرچہ تیسری وجہ فساد تو نہیں پائی جاتی لیکن بقیہ تین وجوہ فساد بدستور پائی جاتی ہیں۔ حاصل یہ کہ کمیشن پر کھالیں یا چندہ جمع کرنے کے معاملے میں وجوہ فساد قفیز طحان کے صورت سے زائد بھی ہیں اورشدیدبھی۔ زائد تو اس لئے کہ قفیزطحان میں جہالت منفعت یا جہالت اجرت میں سے کوئی ایک بھی نہیں جبکہ مذکورہ معاملہ میں یہ دونوں وجوہ فساد بھی موجود ہیں جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا۔ اور شدید اس لئے کہ قفیز طحان کے معاملہ میں اجرت جو کہ حق اجیر ہے وہ اسی اجیر ہی کے عمل پر موقوف ہے جو کہ احد المتعاقدین بھی ہے، لہذاوہ اپنے عمل کے ذریعے خود اپنی اجرت وصول کر سکتا ہے لہذاقفیز طحان میں مستاجر کا ادائے اجرت پر قادر بقدرۃالغیر ہونا اتنی شدید وجہ فساد نہیں جبکہ صورت مسوولہ میں اجیر کو عمل پر[ جو کہ اصل اورمعقودعلیہ بھی ہے] کسی قسم کی قدرت نہیں بلکہ اس میں وہ ایسے غیر کا محتاج ہے جو احد المتعاقدین بھی نہیں لہذا اس صورت میں اجیرقادر علی العمل بقدرۃ الغیر ہونے کی وجہ سے بحکم عاجز ہے اور اسی وجہ الفرق اور شدت فساد کی وجہ سے احسن الفتاوی میں اس کو اجارہ باطلہ قرار دے کر اس کی اجرت کو حرام قرار دیاہے،البتہ دیگر کتب فتاوی مثلا امداد الفتاوی اور فتاوی محمودیہ میں اس کو اجارہ فاسدہ قراردیا گیا ہےلہذا استیفائے منافع[ کھالیں جمع کرنے یا چندہ وصولی] کے بعد اجارہ فاسدہ کے قول کے مطابق اجیر[ ملازم ] اجرت مثل اوراجر مسمی میں سے اقل کا مستحق ہوگا باقی کمیشن پر چندہ یا قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے معاملہ کو دلالی پر قیاس نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ دلالی ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس کی معاملات میں متعاقدین یا ان میں سے ایک کو کثرت سے حاجت اور ضرورت پڑتی رہتی ہے جبکہ کمیشن پر چندہ یا قربانی کی کھالیں جمع کرنے کا معاملہ ایسا نہیں۔ کمیشن پر چندہ یا قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے کے معاملے کی صحیح صورت یہ ہے کہ منتظمین ، ملازمین کے لئےفی یوم کے حساب سے اجرت متعین کرلیں اور اس کے بعد فی کھال کے لانے پر ایک متعین رقم بطور انعام مقرر کر دی جائے۔ اس طرح یہ معاملہ درست ہوسکتاہے۔
حوالہ جات
وفی الفتاوی الخانیۃ:۲۔۱۷۰ رجل أمر سمساراً ليشتري له الكرابيس أو دلالاً ليبيع له هذه الأثواب بدرهم لا تجوز هذه الإجارة لأن البيع لا يتم بالدلال وإنما يتم به والمشتري ولا يدري متى يجيء المشتري فإن ذكر لذلك وقتاً إن ذكر الوقت أولاً ثم الأجرة بأن قال استأجرتك اليوم بدرهم على أن تبيع لي كذا وتشتري جاز فإن ذكر الأجرة أولاً ثم الوقت بأن قال استأجرتك بدرهم اليوم على أن تبيع لي كذا وتشتري لا يجوز وهذه ومسألة تذرية الكدس سواء وإذا فسدت الإجارة وعمل وأتم العمل كان له أجر مثله على ما هو العرف في أهل ذلك العمل وذكر مُحَمَّد رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى الحيلة في استئجار السمسار وقال يأمره أن يشتري شيئاً معلوماً أو يبيع ولا يذكر له أجراً أولاً ثم بواسيه بشيء إما هبة أو جزاء لعمله فيجوز ذلك لماس الحاجة كما جاز دخول الحمام بأجر غير مقدر ثم يعطي الأجر عند الخروج وكذا شرب الرجل الماء من السقاء ثم يعطي له فأساً أو شيئاً وكذا الختان والحجام * وإذا أخذ السمسار أجر مثله هل يطيب له ذلك اختلفوا فيه قال الشيخ الإمام المعروف بخواهر زاده يطيب له ذلك وهكذا عن غيره وإليه أشار مُحَمَّد رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى في الكتاب وهو نظير ما لو اشترى شيئاً شراء فاسداً فهلك المبيع عنده وأخذ البائع قيمته طابت القيمة للبائع وقال بعضهم لا يطيب للدلال والسمسار اجر مثله لأنه مال استفاد بعقد فاسد هذا إذا أمر السمسار بالبيع والدلال بالشراء ولم يذكر له وقتاً أما إذا ذكر له وقتاً بأن قال استأجرتك اليوم بدرهم على أن تبيع لي هذه الأثواب أو تشتري لي كذا حتى جازت الإجارة كان له المسمى فيطيب له عند الكل * وفی رد المحتار:۶۔۴۷ قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لا يقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة ويطيب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل وذكر أصلا يستخرج منه كثير من المسائل فراجعه في نوع المتفرقات والأجرة على المعاصي. وفیہ ایضا:۶۔۶۳ قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة. وفی الدر مع الرد:۶۔۵ وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة. (قوله وشرطها إلخ) هذا على أنواع: بعضها شرط الانعقاد، وبعضها شرط النفاذ، وبعضها شرط الصحة، وبعضها شرط اللزوم، وتفصيلها مستوفى في البدائع ولخصه ط عن الهندية (قوله كون الأجرة والمنفعة معلومتين) أما الأول فكقوله بكذا دراهم أو دنانير وينصرف إلى غالب نقد البلد، فلو الغلبة مختلفة فسدت الإجارة ما لم يبين نقدا منها وفی الدر:۶۔۵۶ (ولو) (دفع غزلا لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلا ليحمل طعامه ببعضه أو ثورا ليطحن برهببعض دقيقه) فسدت في الكل؛ لأنه استأجره بجزء من عمله، والأصل في ذلك نهيه - صلى الله عليه وسلم - عن قفيز الطحان وقدمناه في بيع الوفاء. والحيلة أن يفرز الأجر أولا أو يسمي قفيزا بلا تعيين ثم يعطيه قفيزا منه فيجوز،
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب