021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کیاامام اعظم رحمہ اللہ تعالی مسئلہ حرمت مصاہرت میں متفردہیں؟
71772نکاح کا بیانحرمت مصاہرت کے احکام

سوال

تینوں فقہوں کے اماموں کے فتاوی کو چھوڑ کر ایک امام کے قول پر عمل کرنا یا یوں کہہ لیں کہ تینوں فقہوں کے متفقہ فتوی کو چھوڑ کر ایک فقہ پر عمل کرناکیا اتباع غیرسبیل المؤمنین نہیں؟( اگرچہ وہ ایک فقیہ بھی عند اللہ ماجور ہے۔)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

غالبا بظاہر سؤال میں اتباع غیر سبیل المؤمنین سے سورہ نساء کی آیت نمبر۱۱۵  کی طرف اشارہ ہے، لیکن  معلوم ہونا چاہئے کہ اختلافی، اجتہادی فقہی مسائل میں کسی بھی ایک جانب کی پیروی کو اگرچہ وہ خلاف جمہور  ہی کیوں نہ ہو،اتباع غیر سبیل المؤمنین کہنا درست نہیں،جس کی چند وجوہ ہیں:

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس آیت میں سبیل المؤمنین سے مراد متفقہ (قطعی منصوص)واجماعی مسائل واحکام مراد ہیں،جیساکہ سیاق آیت کے علاوہ "المؤمنین" کا لفظ بھی اس کی دلیل ہے، اس لیے کہ سبیل المؤمنین کا معنی تمام مسلمانوں کے راستہ کے ہیں،نہ کہ کچھ مسلمانوں کا راستہ ونظریہ، جیساکہ امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی اس آیت سے اجماع کی حجیت پر استدلال کتب تفسیر واصول میں منقول ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر بالفرض آیت کوعام(جملہ مسائل شرعیہ کو شامل) مان بھی لیاجائے تو بھی اس آیت کو حرمت مصاہرت جیسے مسئلہ میں امام صاحب کےمذہب پر عمل سے جوڑنا درست نہیں،اس لیے کہ سیاق آیت کی روشنی میں سبیل المؤمنین  کی وہ مخالفت اتباع غیر سبیل المؤمنین کا مصداق ہوگی،جو شرعی دلائل کے تناظر میں نہ ہو، جب کہ مسئلہ زیر بحث میں مسلک حنفی ہر طرح کےنقلی وعقلی شرعی دلائل کے ساتھ مدلل ہے۔

 تیسری بات یہ ہے کہ یہ بات بھی خلاف حقیقت ہے کہ اس مسئلہ میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی تنہا ہیں،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن وسنت سے استدلال کے علاوہ کئی کبار وفقہاءصحابہ  کرام وتابعین رضی اللہ عنہم سے مروی آثار کی بنیادپرامام اعظم ابو حنیفہ اور امام احمد رحمہمااللہ مطلقا اور امام مالک رحمہ اللہ تعالی ایک روایت کے مطابق ایک طرف جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالی دوسری طرف ہیں۔

چوتھی بات یہ ہے کہ اگر بالفرض اس مسئلہ میں امام اعظم رحمہ اللہ تعالی کو تنہا مان بھی لیا جائے تو بھی اس سے امام اعظم رحمہ اللہ تعالی کے مذہب  کی قوت وصداقت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اس لیے کہ احکام شرعیہ کی تحقیق کے باب میں بنیادی طور پر دلائل یا قائلین کی کثرت وقلت کا قطعا اعتبار نہیں ہوتا ،بلکہ قوت دلیل کو دیکھا جاتا ہے،انما العبرۃ لقوۃ الدلیل لا لکثرتہ، جبکہ اس مسئلہ میں مذہب حنفی نہ صرف یہ کہ قرآن وسنت سے قوی استدلال وروایات وآثار کی ایک کثیرمقدار پر مبنی ہے ،بلکہ روایات کی سند کے اعتبار سے قوی اورعقلی مضبوط دلائل سےمؤید ومبرہن بھی ہے،نیز اگر اس مسئلہ میں امام صاحب اور دیگر مذہب کے دلائل میں تساوی کوبھی مان لیا جائے تو بھی اصولی لحاظ سے ترجیح مذہب حنفی ہی کو ملے گی، اس لیے کہ عند التعارض ترجیح محرم کو ہوتی ہے۔

حاصل یہ کہ اس مسئلہ میں امام اعظم رحمہ اللہ تعالی کا مذہب ہر لحاظ سے قوی اور برتر ہے، لہذا اس پر عمل کرنے کو کسی بھی درجہ میں اتباع غیر سبیل المؤمنین کہنا جائز نہیں،بلکہ یہ عین اتباع سبیل المؤمنین ہے۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

 ۲رجب۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب