021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کسی ایک شریک کے لئے نفع کے علاوہ تنخواہ مقرر کرنے کا حکم
53785شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

1. تین آدمیوں نےمل کرکوئی کاروبار کیا۔سرمایہ سب کابرابر ہے۔نفع بهی برابر برابر طے ہوااورکام بهی تینوں نےکرناہےیعنی مال میں بهی اورعمل میں بهی تینوں شریک ہیں۔ان میں سےایک آدمی کاتجربہ زیادہ ہے،باقی دو نئے ہیں۔اب تجربےوالاشخص کہتاہےکہ میں تجربہ کی بنیادپرطےشدہ نفع کےعلاوہ اتنی تنخواہ بهی لوں گا ایساکرناجائزہےیانہیں؟ جبکہ باقی شریک صرف طےشدہ نفع لیں گے۔واضح رہےکہ باقی شرکاء تنخواہ دینےپرراضی بهی ہیں۔ 2. اس کےمطالبہ کےبغیراگرتنخواہ مقررکی جاۓتو کیاحکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1. کاروباری شراکت داری میں کسی شریک کے لئے تنخواہ مقرر کرنا درست نہیں ،البتہ اگر ایک شریک زیادہ تجربے والا ہو تو اس کےعمل اور تجربے کی بنیا د پر اس کے لئےنفع کا تناسب زیادہ مقرر کرنا جائز ہے ،جبکہ اس پر باقی شرکاء بھی راضی ہوں،مثلانفع یوں طے کیا جاسکتا ہے کہ دو شریکوں کو تیس تیس فیصد نفع ملے گااور جس شریک کا تجربہ زیادہ ہے اس کو چالیس فیصد ملےگا۔ 2. درست نہیں ہے۔
حوالہ جات
قال في الهداية: "ولنا قوله صلى الله عليه وآله وسلم: "الربح على ما شرطا، والوضيعة على قدر المالين" ولم يفصل، ولأن الربح كما يستحق بالمال يستحق بالعمل كما في المضاربة؛ وقد يكون أحدهما أحذق وأهدى وأكثر عملا وأقوى فلا يرضى بالمساواة فمست الحاجة إلى التفاضل." (ج:3,ص:9, دار احياء التراث العربي - بيروت - لبنان) وفي الشاميه: "لا أجر للشريك في العمل بالمشترك" (ج:4,ص:326,دار الفكر-بيروت)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سمیع اللہ داؤد عباسی صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب