021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرض كی علاوہ مزید رقم ادا کرنے کا حکم
53948خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

ایک صاحب نے مکان کی خریداری کے لئے سات لاکھ رقم قرض لی اور مکان خرید لیا۔ مکان خریدنے کے بعد اس مکان کو کرائے پر دے دیا۔ ان صاحب نے قرض دینے والے سے یہ معاہدہ کرلیا کہ ہر مہینے تیس ہزار روپے آپ کو قسط ادا کرتا رہوں گا اور کرائے کی مد میں سے پانچ ہزار روپے الگ سے ادا کروں گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ پانچ ہزار روپے سود میں داخل ہے؟؟ یہ پانچ ہزار روپے قرض کی رقم سے الگ ہیں۔ واضح رہے جن صاحب نے قرض دیا ہے وہ پیدائشی ایک پیر سے معذور ہیں اور غیر شادی شدہ ہیں اور پرائیوٹ کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ صرف ان کی دل جوئی کے لئے یہ پانچ ہزار روپے وہ صاحب ادا کرنا چاہتے ہیں۔ سود لینے دینے کی نیت دونوں کی نہیں ہے۔ آپ سے رہنمائی کی استدعا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قرض پر زائد رقم لینا سود کہلاتا ہے،لیکن یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب قرض کا معاملہ کرتے وقت زائد رقم واپس کرنے کی شرط لگائی جائے۔اب چونکہ مذکورہ صورت میں شرط کیے بغیرمحض تعاون اور احسان کی بنیادپر یہ زائد رقم دی جا رہی ہے ،لہذااس میں حرج نہیں ،بلکہ باعث ثواب ہے۔البتہ یہ ضروری ہے کہ شروع میں یہ بات واضح کر دی جائے کہ ان پیسوں کا قرض کےساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا،بلکہ یہ تبرع اور احسان کے طور پر دیے جارہے ہیں،تاکہ بعد میں کسی قسم کا کوئی جھگڑا نہ ہو۔
حوالہ جات
قال في تبيين الحقائق: "وتأويل هذا عندنا أن تكون المنفعة موجبة بعقد القرض مشروطة فيه، وإن كانت غير مشروطة فيه فاستقرض غلة فقضاه صحاحا من غير أن يشترط عليه جاز، وكذلك لو باعه شيئا، ولم يكن شرط البيع في أصل العقد جاز ذلك، ولم يكن به بأس إلى هنا لفظ الكرخي في مختصره، وذلك؛ لأن القرض تمليك الشيء بمثله فإذا جر نفعا صار كأنه استزاد فيه الربا فلا يجوز؛ ولأن القرض تبرع وجر المنفعة يخرجه عن موضعه، وإنما يكره إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد، وإذا لم تكن مشروطة فيه يكون المقترض متبرعا بها فصار كالرجحان الذي دفعه - صلى الله عليه وسلم - في بدل القرض." (ج:6,ص:29,المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة) وفي البحر الرائق: "وفي القرض الجائز لا يتعين بل يرد المثل، وإن كان قائما، وعن أبي يوسف ليس له إعطاء غيره إلا برضاه، وعارية ما جاز قرضه قرض، وما لا يجوز قرضه عارية، ولا يجوز قرض جر نفعا بأن أقرضه دراهم مكسرة بشرط رد صحيحة أو أقرضه طعاما في مكان بشرط رده في مكان آخر فإن قضاه أجود بلا شرط جاز." (ج: 6,ص:133,دار الكتاب الإسلامي)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سمیع اللہ داؤد عباسی صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب