ہم نے ایک کلو دودھ خریدا۔دکان دار نے کہا کہ ابھی تازہ دودھ نہیں آیا،پہلے کا ہےوہی دے رہا ہوں ۔ہم نے جب دودھ ابالا تو وہ خراب ہو گیا،دکان دار کو بتایا تو اس نے مزید ایک کلو دودھ دے دیا۔اب سوال یہ ہے کہ:
(1)جو دودھ خراب ہو گیا تھا ،اس کا کھویا بنا کر استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
(2) اگرکسی نےبنا کر استعمال کر لیا تو اس کا کیاحکم ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
(1)خراب دودھ بھی کسی حد تک قابل انتفاع ہوتا ہے،لہذااگرخراب دودھ کے بدلے نیا دودھ لے لیا تواب اصل تو یہ ہے کہ خریدار کے لئےاس کو استعمال کرنا جائز نہیں ،کیونکہ اب یہ دودھ اس کی ملکیت نہیں بلکہ دکاندار کی ملکیت ہے۔لیکن چونکہ عموماخراب دودھ دکاندار نہ ہی واپس لیتے ہیں اورنہ استعمال کر تے ہیں ،لہذا عرفااس سے کھویا بناکر استعما ل کرنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔البتہ احتیاط اسی میں ہے کہ دکاندار سے پوچھ لیا جائےاور اگرکسی جگہ عرف یہ ہوکہ دکاندار خود کھویا بناتا ہو یا خراب دودھ سے کوئی اور انتفاع اٹھاتا ہو ،تو پھر دکاندار سے اجازت لینا ضروری ہو گا۔
(2)اوپر بیان کی گئی دونوں صورتوں میں سےکسی جگہ اگر پہلی صورت رائج ہو اور وہا ں کسی نے بغیر اجازت دودھ استعمال کر لیا تو اس پر کوئی ضمان نہیں اور اگر دوسری صورت رائج ہو تو استعمال کرنے والاقیمت کا ضامن ہو گااور یہ قیمت دودھ والوں سے لگوائی جا سکتی ہے۔
حوالہ جات
قال في المبسوط:
"والإذن دلالة بمنزلة الإذن إفصاحا كما في شرب ماء السقاية وكمن نصب القدر على الكانون وجعل فيه اللحم وأوقد النار تحته فجاء إنسان وطبخه لم يكن ضامنا لوجود الإذن دلالة."
(ج:4,ص:160,م:دار المعرفة - بيروت)
وفي البناية:
"والإذن الثابت عرفا كالإذن الثابت بالنطق، بدلالة أن من دعا قوما إلى وليمة فقدم لهم طعاما فإنه يكون آذنا بتناوله ذلك في العرف"
(ج:2,ص:60,م:دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)
وفي مجموعة رسائل ابن عابدين:
"العرف عملي وقولي ، فالأول : كتعارف قوم على أكل البر ولحم الضأن ، فإذا قال : اشتر لي طعاما أو لحما انصرف إلى البر ولحم الضأن عملا بالعرف العملي."
(ج:2,ص:112)