021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
امام کی آواز نہ آنے کی وجہ سے چھوٹے ہوئے ارکان کا حکم
15397نماز کا بیانمسبوق اور لاحق کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مسجد دو منزلہ ہیں اس میں بعض اوقات جماعت کے دوران سپیکر بند ہو جاتا ہے،بعض اوقات مقتدی امام کے انتظار میں رہتے ہیں امام صاحب نیچے نماز سے فارغ ہوچکا ہوتا ہےاور بعض اوقات مقتدی سے کچھ ارکان رہ جاتے ہیں ۔اب سوال یہ  ہے کہ جن مقتدیوں کی نماز رہ گئی اس کا کیا حکم ہے؟کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مسجد دو منزلہ ہیں اس میں بعض اوقات جماعت کے دوران سپیکر بند ہو جاتا ہے،بعض اوقات مقتدی امام کے انتظار میں رہتے ہیں امام صاحب نیچے نماز سے فارغ ہوچکا ہوتا ہےاور بعض اوقات مقتدی سے کچھ ارکان رہ جاتے ہیں ۔اب سوال یہ  ہے کہ جن مقتدیوں کی نماز رہ گئی اس کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسجد کی انتظا میہ کو چاہیے کہ سپیکر درست رکھا کریں یا نمازیوں میں سے جن کی آواز بلند ہو وہ ایسے موقع پر  امام  کی تکبیرکے بعد بلند آواز سے تکبیر کہے تاکہ تمام مقتدیوں کو آواز پہنچ سکے اور نماز میں خلل واقع ہونے سے بچ جائے۔

اس کے باوجودجن لوگوں سے نماز کے کچھ ارکان رہ جائیں  وہ  لاحق کے حکم میں ہوں گے،لہذا ان سے جوارکان رہ گئے ہوں تو پہلے چھوٹے ہوئے ارکان ادا کریں،پھر امام کے ساتھ شریک ہوں،ان کی ادائیگی اس طرح ہوگی جیسے امام کے پیچھے ہوتی ہے یعنی اس میں قراءت بھی نہیں کریں گےاور اگر غلطی ہو جائے تو سجدہ سہو بھی نہیں کریں گے ۔ اس کے بعد اگر امام نماز سے فارغ نہیں ہوا ہو تو امام کے ساتھ شریک ہو جائے اور بقیہ نماز مکمل کریں ،اگر امام نماز مکمل کر چکے ہو ں تو اپنی نماز مکمل کریں اور اس میں بھی قراءت اور سجدہ سہو نہیں کریں گےیعنی مقتدی کے حکم میں ہوں گے۔اور جن سے شروع میں بھی کوئی رکعت چھوٹ گئی ہواور درمیان میں بھی آواز نہ آنے کی  وجہ سے کچھ ارکان رہ گئے ہوں تو اقتدا سے پہلے  جو رکعتیں چھوٹ گئی ہیں ان میں مسبوق کے حکم میں ہوں گے،لہذا اس میں قراءت  کریں گے اور جو ارکان اقتدا کے بعد رہ گئے ہوں ان میں قراءت نہیں کریں گے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ:(واللاحق من فاتته) الركعات (كلها، أو بعضها) لكن (بعد اقتدائه) بعذر ،كغفلة ورحمة وسبق حدث وصلاة خوف ومقيم ائتم بمسافر، وكذا بلا عذر؛ بأن سبق إمامه في ركوع وسجود، فإنه يقضي ركعة،وحكمه كمؤتم، فلا يأتي بقراءة ولا سهو ،ولا يتغير فرضه بنية إقامة، ويبدأ بقضاء ما فاته عكس المسبوق ،ثم يتابع إمامه إن أمكنه إدراكه ،وإلا تابعه، ثم صلى ما نام فيه بلا قراءة، ثم ما سبق به بها إن كان مسبوقا أيضا، ولو عكس صح ،وأثم لترك الترتيب.
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:قوله:( ثم ما سبق به بها إلخ): أي ثم صلى اللاحق ما سبق به بقراءة إن كان مسبوقا أيضا، بأن اقتدى في أثناء صلاة الإمام ثم نام مثلا.
وهذا بيان للقسم الرابع وهو المسبوق اللاحق. وحكمه أنه يصلي إذا استيقظ مثلا ما نام فيه، ثم يتابع الإمام فيما أدرك، ثم يقضي ما فاته.(ردالمحتار:1/596)
قال العلامۃ الزیلعی رحمہ اللہ:واللاحق بأن تحريمته على تحريمة الإمام حقيقة ؛لالتزامه متابعته وهو الذي أدرك أول الصلاة، وفاته من الآخر بسبب النوم أو الحدث، وكذا بأن أداءه فيما يقضيه على أداء الإمام تقديرا؛ لأنه التزم متابعته في أول الصلاة بالتحريمة، فتثبت الشركة بينهما ابتداء، فيبقى حكم تلك الشركة ما لم تنته الأفعال؛ لأن التحريمة لا تراد لذاتها بل للأفعال، فما بقي شيء من أفعال الصلاة تبقى الشركة على حالها، فصار اللاحق فيما يقضي ،كأنه خلف الإمام تقديرا، ولهذا لا يقرأ ،ولا يلزمه السجود بسهوه.( تبیین الحقائق:1/138)

عثمان غنی

 دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

   19/رجب 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عثمان غنی بن مغفور شاہ

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب