03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کرایے پر لی ہوئی زمینوں کو آگے کرایے پر دینےکا حکم
54313 اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

ہمارے علاقے میں کچھ زمینیں ہیں جن کے اصل مالک نواب لوگ ہیں جو یہاں نہیں رہتےاوران زمینوں پر علاقے کے لوگوں کا قبضہ ہےاور اصل مالکوں کو اجارہ دیتے ہیں۔بعض لوگ یہ زمینیں آگے دوسرے لوگوں کو کرایہ پر دے دیتے ہیں اور ان سےکرایہ لیتے ہیں۔کیا اس طرح آگے کرایہ پر زمین دینا اور کرایہ لینا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جن لوگوں نے زمینیں کرائے پر لی ہیں ،وہ زمینوں سے فائدہ حاصل کرنے میں اصل مالک کی طرح ہیں،لہذا ان کے لئے زمینیں آگے کرایہ پر دینا جائزہے۔البتہ اس میں یہ بات ضروری ہے کہ دوسرے کرایہ دار سے اتنا ہی کرایہ وصول کیا جائے جتنے پہ اس (پہلے کرایہ دار)نےاصل مالک سے زمین لی ہےیااس سےکم کرایہ لیا جائے،اس سے زیادہ کرایہ لینا جائز نہیں ہے۔
حوالہ جات
قال في الشاميه: "(قوله للمستأجر أن يؤجر المؤجر إلخ) أي ما استأجره بمثل الأجرة الأولى أو بأنقص، فلو بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين" (ج:6,ص:91, دار الفكر-بيروت) وفي المحيط البرهاني: "قال محمد رحمه الله: وللمستأجر أن يؤاجر البيت المستأجر من غيره، فالأصل عندنا: أن المستأجر يملك الإجارة فيما لا يتفاوت الناس في الانتفاع به؛ وهذا لأن الإجارة لتمليك المنفعة والمستأجر في حق المنفعة قام مقام الآجر، وكما صحت الإجارة من الآجر تصح من المستأجر أيضا فإن أجره بأكثر مما استأجره به من جنس ذلك ولم يزد في الدار شيء ولا أجر معه شيئا آخر من ماله مما يجوز عند الإجارة عليه، لا تطيب له الزيادة عند علمائنا رحمهم الله وعند الشافعي تطيب له الزيادة." (ج:7,ص:429, دار الكتب العلمية، بيروت ) وفي الفتاوى الهندية: "الأصل عندنا أن المستأجر يملك الإجارة فيما لا يتفاوت الناس في الانتفاع به." (ج:4,ص:425, دار الفكر)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سمیع اللہ داؤد عباسی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب