021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بغیر تعدی کے مال ہلاک ہونے کی صورت میں وکیل کےضمان کاحکم
54310 وکیل بنانے کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

میں سعودی عرب الامام چاول کا کاروبار کرنے والی کمپنی میں کام کرتا ہوں ،جو کہ پاکستان سےمال امپورٹ کر کے سیل کرتی ہے۔میرا ایک دوست( جو کہ جدہ، سعودی عرب میں مقیم ہے) نے کہا کہ مجھے بھی پاکستان سے چاول منگوا کر دو۔میں نے اسے پاکستانی چاول والی پارٹی سے ریٹ منگوا کر دیے،تو اس نے کہاکہ مجھے پاکستان سے اسی ریٹ میں ایک کنٹینر منگوا کر دیں اور مال کی ایڈوانس پیمنٹ کردی جو کہ میں نے پاکستانی پارٹی کو بھیج دی۔اس نے مال لوڈ کر دیا اور مال دمام کے ایئر پورٹ پر پہنچ گیا ۔ میں نے مال کلیئر کروا کر دوست سے پوچھا کہ مال اسی کنٹینر میں جدہ بھیج دوں؟تو اس نے کہا کہ کنٹینر کا کرایہ زیادہ ہے،لہذا آپ مارکیٹ سے عام ٹریلر لے کر اس میں لوڈکردیں ۔میں نے مال لوڈ کروا کر جدہ کے لئے روانہ کردیا۔لیکن بدقسمتی سے ٹریلر والا مال سمیت غائب ہو گیا۔ اس کی رپوٹ پولیس میں کروا دی۔اب ایک سال سے زائد عرصہ ہو گیا کوئی سراغ نہیں ملا۔اب میرا دوست مجھ سے پیسوں کا مطالبہ کر رہا ہے،جبکہ میں نے اس میں کوئی نفع نہیں لیا تھا،محض دوست کی مدد کرنا چاہی تھی کیونکہ اس وقت اس کے پاس مال منگوانے کی سہولت نہیں تھی۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟مجھ پر یہ پیسے ہیں یا نہیں؟اور مجھے یہ ادا کرنے ہوں گے یا نہیں؟(اس سارے معاملے سے متعلق کوئی تحریر نہیں ہے) o

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں درج تفصیل کے مطابق اس سارے معاملے میں شرعا آپ کی حیثیت وکیل کی ہےاوروکیل کی حیثیت امین کی ہوتی ہےیعنی اس پر نقصان کا تاوان اس وقت تک نہیں ڈالا جاتا جب تک اس کی طرف سے تعدی یا غفلت نہ پائی جائے ۔اب چونکہ بقول آپ کے یہ دونوں باتیں آپ کی طرف سے نہیں پائی گئیں کیونکہ آپ نے سارا معاملہ اپنے دوست کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق انجام دیا ہے ،لہذایہ پیسے آپ پر لازم نہیں ہیں اور آپ کے دوست کاآپ سے ان پیسوں کا مطالبہ کرنا شرعادرست نہیں ہے۔البتہ اگر وہ آپ کے خلاف کوئی کوتاہی یادانستہ غفلت ثابت کردیتاہےتو اس کو مطالبے کا حق پہنچتاہے۔
حوالہ جات
قال قي المحيط البرهاني: "ويرجع الوكيل على الموكل بالأجرة؛ لأن الوكيل قبض الدار من الآجر وله حق القبض، وقبض الوكيل متى حصل بحق، فهو بمنزلة قبض الموكل في حق المعقود عليه لأن يد الوكيل في حق المعقود عليه الذي يقابله البذل يد أمانة ونيابة." (ج:7,ص:614, دار الكتب العلمية، بيروت ) وفي الهداية: "قال: "ويوكل من يتصرف فيه" لأن التوكيل بالبيع والشراء من توابع التجارة والشركة انعقدت للتجارة، بخلاف الوكيل بالشراء حيث لا يملك أن يوكل غيره لأنه عقد خاص طلب منه تحصيل العين فلا يستتبع مثله.قال: "ويده في المال يد أمانة" لأنه قبض المال بإذن المالك لا على وجه البدل والوثيقة فصار كالوديعة." (ج:3,ص:11, دار احياء التراث العربي) وفي مجمع الضمانات: "ولكل واحد من المتفاوضين وشريكي العنان أن يبضع المال ويستأجر للعمل ويودعه ويدفعه مضاربة.وعن أبي حنيفة أنه ليس له ذلك؛ لأنه نوع شركة فلا يملكها والأول أصح وهو رواية الأصل ويوكل من يتصرف فيه ويده في المال يد أمانة، من الهداية والضمير في يده راجع إلى الوكيل نص عليه ابن كمال في الإيضاح وعلله بقوله؛ لأنه قبض المال بإذن المالك لا على وجه البدل والوثيقة فصار كالوديعة، انتهى." (ص:298, دار الكتاب الإسلامي) وفي فتح القدير: "بعضهم قال :تتعين حتى تبطل الوكالة بهلاكها لما ذكرنا أن الوكالة وسيلة إلى الشراء والدراهم والدنانير يتعينان في الشراءبعد التسليم ، فكذا فيما هو وسيلة إليه ، ولأن يدا لوكيل يد أمانة، والدراهم والدنانير يتعينان في الأمانات ." (ج:18,ص:61,المكتبة الشاملة)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سمیع اللہ داؤد عباسی صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب