021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لقطہ کی دو صورتوں کاحکم
54365گری ہوئی چیزوں اورگمشدہ بچے کے ملنے کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

(1) میری دکان پر ایک کسٹمر اپنے کپڑے اور پانچ سو روپے چھوڑ کر چلاگیا،اس بات کو دو مہینوں سے زیادہ ٹائم ہو چکا ہے۔ابھی تک کوئی ان چیزوں کا پوچھنے نہیں آیا۔مجھے بتائیں کہ میں اب ان کا کیا کروں؟ (2) سیلاب آکر ایک گاؤں بہا کر لے جاتا ہے جس کی وجہ سے تعمیراتی لکڑی، گھریلو ضروریات زندگی کے سامان بھی بہہ جاتے ہیں ۔ کیا ان چیزوں کا حکم بھی لقطہ کا ہے یا ان کو نکال کر کوئی بھی اپنے لیے استعمال کرسکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1) اگرابھی تک آپ کا ظن غالب ہے کہ مالک ان چیزوں کو تلاش کر رہا ہو گا،تو اس صورت میں آپ پر لازم ہے کہ آپ ان چیزوں کو سنبھال کر رکھیں اور مناسب جگہوں پر ان کا اعلان بھی کریں اور اگر آپ کا ظن غالب یہ ہے کہ اب مالک ان چیزوں کو تلاش نہیں کرے گا،تو پھر آپ ان چیزوں کو اصل مالک کی طرف سے کسی غریب کو صدقہ کر دیں اوراگر آپ خودمستحق زکوٰۃ ہیں تو خود بھی استعمال کر سکتے ہیں، البتہ اگر کپڑے اور پیسے استعمال کرنے کےبعد اصل مالک آجائے، تو اس کو اختیار ہو گا کہ وہ صدقہ کو برقرار رکھے یا آپ کویا جس کو آپ نے چیزیں صدقہ کی ہیں،اس کو ضامن بنائے،نیز اگر یہ چیزیں استعمال ہو جانے سے پہلے مالک آجائےتووہ اپنی چیزیں واپس لے سکتاہے،چاہے جس کے پاس بھی ہوں۔ (2) اگر سیلاب کے پانی میں ایسی چیزیں بہہ کر آجائیں جو جلدی خراب ہونے والی ہیں،مثلافروٹ،سبزی وغیرہ تو یہ چیزیں مباح ہیں کوئی بھی ان کو نکال کر استعمال کر سکتاہےاور اگر کوئی ایسی چیز ہے جو خراب ہونے والی نہیں ہے،مثلا لکڑی تواس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر نکالتے وقت وہ ایسی حالت میں ہے کہ مارکیٹ میں کوئی بھی اس کی قیمت نہ لگائےتو ایسی چیز بھی مباح ہےاور کوئی بھی اس کو نکال کر استعمال کر سکتاہے اور اگر اس چیز کی آسانی سے مارکیٹ میں قیمت لگ سکتی ہے یعنی مارکیٹ میں بک سکتی ہے تو پھر اس کا وہی حکم ہے جو نمبر(1)میں کپڑوں اور پیسوں کے حوالے سے ذکر کیا گیاہے۔
حوالہ جات
في الفتاوى الهندية: "وقال يعرف الملتقط اللقطة في الأسواق والشوارع مدة يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك هو الصحيح، كذا في مجمع البحرين ولقطة الحل والحرم سواء، كذا في خزانة المفتين ، ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين إن شاء لو هلكت في يده فإن ضمن الملتقط لا يرجع على الفقير وإن ضمن الفقير لا يرجع على الملتقط وإن كانت اللقطة في يد الملتقط أو المسكين قائمة أخذها منه ، كذا في شرح مجمع البحرين." (ج:17,ص:358, المكتبة الشاملة) وفي مجمع الضمانات: "وعلى الملتقط أن يعرفها إلى أن يغلب على رأيه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك....... ثم يتصدق بها، وله أن ينتفع بها لو فقيرا فإن جاء صاحبها بعدما تصدق بها فهو بالخيار إن شاء أمضى الصدقة وله ثوابها، وإن شاء ضمن الملتقط، وإن شاء ضمن المسكين إذا هلك في يده وإذا كان قائما أخذه." (ج:1,ص:209, دار الكتاب الإسلامي) وفي تبيين الحقائق: (3/ 304) "وقيل إن شيئا من هذه المقادير ليس بلازم ويفوض إلى رأي الملتقط يعرفها إلى أن يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك ......" (ج:6,ص:91,المطبعة الكبرى الأميرية) وفي الشاميه: "(قوله: إن له قيمة فلقطة) وقيل: إنه كالتفاح الذي يجده في الماء. وذكر في شرح الوهبانية ضابطا، وهو أن ما لا يسرع إليه الفساد ولا يعتاد رميه كحطب وخشب فهو لقطة إن كانت له قيمة ولو جمعه من أماكن متفرقة في الصحيح كما لو وجد جوزة ثم أخرى وهكذا حتى بلغ ماله قيمة، بخلاف تفاح أو كمثرى في نهر جار فإنه يجوز أخذه وإن كثر؛ لأنه مما يفسد لو ترك." (ج:4,ص:284, دار الفكر-بيروت) وفیہ ایضا: "(قوله للمستأجر أن يؤجر المؤجر إلخ) أي ما استأجره بمثل الأجرة الأولى أو بأنقص، فلو بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين" (ج:6,ص:91, دار الفكر-بيروت)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سمیع اللہ داؤد عباسی صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب