021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قسطوں پر گاڑی بیچنے کا حکم
54355خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میں گاڑیوں کا کاروبار قسطوں پر کرتا ہوں یعنی (۱) گاڑی کی کل قیمت پانچ لاکھ روپے جس میں سے ایڈوانس ایک لاکھ روپے، باقی رقم (چار لاکھ روپے پر 100 فیصد یا 70 فیصد) کے حساب سے منافع لگا کر اس کی کل قیمت نو لاکھ روپے ہوجاتی ہے۔ اب یہ رقم ماہوار قسطوں پر یعنی دس ہزار /بیس ہزار کے حساب سے لاتے ہیں۔ گاڑی کی چابی اور گاڑی چلانے کے کاغذات ان کے حوالے کرتے ہیں۔ مالکانہ حقوق کے کاغذات اپنے پاس رکھتے ہیں کہ جب قسطیں ختم ہوں گی تو کاغذات پھر دیتے ہیں۔ (۲)اس دوران گاڑی گم ہوجائے یا جل جائے تو اس کی دی ہوئی رقم اور اس کے ذمہ میری باقی رقم ضائع ہوجاتی ہے۔شرعی لحاظ سے یہ کاروبار درست ہے یا نہیں ؟اگر نہیں ہے تو اس کام کو شرعی طور پر کرنے کا طریقہ بتائیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)آپ کا اس طرح گاڑیوں کا کاروبار کرنا درست ہے۔اس لئے کہ معاملہ ہونے کے بعد خریدارگاڑی کا مالک بن گیا ہے اورچونکہ آپ کے پیسے اس کے ذمہ ہیں اس لئےاب وہ آپ کا مقروض ہےاورقرض خواہ کو یہ حق حاصل ہوتاہے کہ وہ اطمینان کے لئے مقروض کی کوئی مملوکہ چیز اپنے پاس رکھ لے جسےرہن(گروی) کہا جاتا ہے، لہذا آپ کا گاڑی خریدار کے حوالے کرنا اور اس کے مالکانہ حقوق کے کاغذات کو اپنے پاس رکھنا(تاکہ خریدار پیسے بروقت ادا کرےاور گاڑی کو آگے فروخت نہ کرسکے) جائز ہے۔اس صورت میں اگرچہ گروی رکھی ہوئی چیز (گاڑی) پر مرتہن (قرض دینےوالے)کا قبضہ نہیں پایا جا رہا،صرف ملکیت کے کاغذات پر قبضہ ہے،لیکن یہ بھی گروی کی ایک جدیدقسم ہےاور یہ جائزہے،اس لئےکہ اس صورت میں بھی گروی سے مقصودہ فوائد قرض دینے والےکو حاصل ہوتے ہیں ،جیسےوقت پر ادائیگی نہ کرنےکی صورت میں قرض دینے والا گاڑی آگے فروخت کرسکتاہے،جب تک ادائیگی نہ ہومقروض اس کو آگے فروخت نہیں کر سکتاوغیرہ۔ (2)مذکورہ معاملے کی یہ شق درست نہیں۔اس لئے کہ معاملہ طے ہونےکے بعد یہ گاڑی خریدار کی ملکیت اور قبضہ میں آ چکی ہے اور اب آپ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے،لہذا چوری یا گم ہونے یا جل جانے کی صورت میں آپ کے پیسے اس کے ذمہ سے ساقط نہیں ہوں گے،بلکہ باقی رقم بھی اس کے ذمہ واجب الادا ہوگی۔البتہ اگرآپ کی طرف سے اس میں کمی یا معافی کا معاملہ ہو جائےتو اس میں حرج نہیں بلکہ یقینا باعث ثواب ہے۔
حوالہ جات
قال في الدر المختار: "(لو كان) ذلك الشيء الذي قال له المشتري أمسكه هو (المبيع) الذي اشتراه بعينه لو (بعد قبضه) لأنه حينئذ يصلح أن يكون رهنا بثمنه (ولو قبله لا) يكون رهنا لأنه محبوس بالثمن كما مر." (ج:6,ص:497, دار الفكر-بيروت) وفي البحر الرائق: "لأن المبيع بعد القبض يصلح أن يكون رهنا بثمنه حتى يثبت فيه حكم الرهن بخلاف ما إذا كان قبل القبض؛ لأنه محبوس بالثمن وضمانه بخلاف ضمان الرهن فلا يكون مضمونا بضمانين مختلفين لاستحالة اجتماعهما حتى لو قال له أمسك المبيع حتى أعطيك الثمن قبل القبض فهلك انفسخ البيع." (ج:8,ص:287, دار الكتاب الإسلامي) وفي مجمع الضمانات: "وأما إذا أعاره المرتهن للراهن ليخدمه أو ليعمل له عملا فقبضه لم يبطل الرهن، ولكن يخرج من ضمان المرتهن فإن هلك في يد الراهن هلك بغير شيء، وللمرتهن أن يسترجعه إلى يده؛ لأن عقدالرهن باق إلا في حكم الضمان في الحال، وإذا بقي الرهن فإذا أخذه عاد الضمان." (ج:1,ص:103, دار الكتاب الإسلامي)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سمیع اللہ داؤد عباسی صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب