021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
"بچے کم ہی اچھے” یاخاندانی منصوبہ بندی کاحکم
54782جائز و ناجائزامور کا بیانخاندانی منصوبہ بندی

سوال

محترم مفتی صاحب !آجکل جب بھی کسی سے بچے کم ہی اچھے کے موضوع پربات کی جاتی ہے ،عام طورپرلوگ مندرجہ ذیل نقاط اٹھاتے ہیں ، ۱۔آجکل کے مہنگائی کے دورمیں دوبچے ہوں توبہترہے ،کیونکہ مہنگائی اس قدرہے کہ متوسط طبقے کاآدمی صرف دوبچوں کے لئے ہی کھانے پینے اورپڑھائی کی ضروریات کابوجھ اٹھاسکتاہے ۔ ۲۔ جتنے زیادہ بچے ہوں گے ،وہ اتناہی وراثت میں حق داربنیں گے اوران کے لئے اتنے ہی مکانات کابندوبست کرناپڑے گاجوکہ آجکل ناممکن ہے ۔ ۳۔ اگرکہاجائے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے توبہت زیادہ بچے ہوتے تھے توجواب ملتاہے کہ اس دورمیں آبادی کم ہوتی تھی ،وسائل مہیاہوجاتے تھے ،اب آبادی بہت بڑھ چکی ہے ۔ آپ حضرات سے درخواست ہے کہ اس مسئلے پرتفصیل سے روشنی ڈال دیں ،اوریہ بھی بتادین کہ اگربالفرض کسی آدمی کے چاریاپانچ بچے ہوجائیں ،تومزید بچوں کی پیدائش روکنے کے وہ اپنایابیوی کاآپریشن کرواسکتاہے ؟ دونوں صورتوں میں بتادیں کہ اس کی بیوی بیماررہتی ہویاتندرست ہو۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دنیاکی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی بناء پرتحدیدالنسل(کم بچے پیداکرنا) جبکہ جبری اورحاکمانہ طورپر ہویاتحریک کے طورپر،مسلمانوں کے شایان شان نہیں ہے ،ایک موحد اورمسلم قوم کو یہ ہرگز زیب نہیں دیتاکہ املاک اورتنگدستی کے خوف سے مشرکین عر ب کی طرح بچوں کو قتل کرے ،نیزجب پیغمبرخداصلی اللہ علیہ وسلم اورخلفاء راشدین جن کی عاقبت اندیشی ،ہمدردی اورمخلوق پرشفقت میں کوئی شبہ نہیں ہے ،انہوں نے عرب جیسے ریگستان اوربے آب وگیاہ ملک میں تحدید النسل(کم بچے پیداکرنے ) کاحکم یامشورہ نہ دیا،حالانکہ وہاں قحط کاخطرہ بلکہ اس کامشاہدہ ان کو تھا،اس کے باوجودحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بجائے تحدیدکے تکثیرنسل کامشورہ دیتے ہوئے فرمایا"تزوجوالودودالولود،فانی مکاثربکم الامم "تم ایسی عورت سےنکاح کروجووپنے خاوندسےمحبت کرنے والی ہواورزیادہ بچے جننے والی ہو،کیونکہ میں دوسری امتوں کے مقابلے میں تمہاری کثرت پرفخرکروں گا۔توایک مسلمان معاشرہ کو یہ کب زیب دیتاہے کہ پیغمبرخداصلی اللہ علیہ سلم اورخلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی اتباع کوچھوڑکرہرمعاملہ میں مغرب کی اندھی تقلید کرے اورتقلید بھی اس درجہ کی کہ اگرآج ہی مغرب کی طرف سے تکثیرنسل کااشارہ ہوجائے توفورااس کے صواب اورحق ہونے پراصرارکریں ۔ "بچے کم ہی اچھے' یااس کوخاندانی منصوبہ بندی کہاجائے یہ تین بنیادوں پرمشمل ہے ۔ ۱۔ محددووسائل میں انسانی نسل کاغیرمعمولی اضافہ آنے والی نسلوں کے لئے شدید خطرناک ہے ،کیونکہ اس سے رزق کابحران آسکتاہے ،وسائل کم اورمسائل زیادہ ہوسکتے ہیں ۔ اس کواگرقرآن وحدیث کی روشنی میں دیکھاجائے تو قرآن کریم نے اس نظریہ کوردکردیاہے،مشرکین مکہ اسی غرض سے اپنے بچوں کومارڈالتے تھے ،قرآن کریم نے اس عمل سے منع فرمایا:ولاتقتلواولادکم خشیۃ املاق ۔اورتم اپنے اولادکوافلاس اورتنگدستی کے خوف سے قتل نہ کرو،ہم تم کوبھی رزق دیتے ہیں اوران کوبھی دیں گے ۔ اس آیت میں اللہ تعالی نے افلاس اورتنگدستی کے خوف سے قتل اولاد سے منع فرمایاہے ،گزشتہ زمانے میں تحدیدنسل یاآبادی کوکنٹرول کرنے کاطریقہ یہ تھاکہ بچوں کوپیداہوتے ہی قتل کردیاجاتاتھا۔ اللہ تعالی نے رزق کے معاملے میں فرمایا:ومامن دابۃ فی الارض الاعلی اللہ رزقھا۔زمین پررہنے والی ہرچیزکورزق دینااللہ تعالی کے ذمہ ہے ۔ احایث میں بھی یہ بات ملتی ہے کہ خاندان کی وسعت قلت رزق کاباعث نہیں بنتی ،بلکہ کشادگی رزق کاباعث ہے ،اس لئے بارگاہ نبوی سے ہدایت کی گئی ہے" التمسوالرزق بالنکاح" اوراسی طرح کثرت عیال کوموجب برکت قراردیاگیاہے "بیت لاصبیان فیہ لابرکۃ فیہ "علاوہ ازیں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت اولاد کی طرف ترغیب بھی دی ہے ،"تزوجوالودودالولودفانی مکاثربکم الامم " اوراولاد کے خوف سے نکاح سے بازرہنے پرحدیث میں وعید فرمائی ہے ،"من ترک الزواج مخافۃ العیال فلیس منا"،تنگی رزق کے خوف سے فیملی پلاننگ کی فکرمشاہدہ کی رو سے بھی غلط ہے کیونکہ انسانی آبادی کی کثرت کے ساتھ ساتھ دنیادولت وعلم میں ترقی کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ ۲۔پیدائش پرپابندی لگاکراعلی معیارزندگی حاصل کرنا یعنی یہ خیال کرناکہ اعلی تعلیم وتربیت میں کثرت اولادرکاوٹ بنتی ہے ،یہ خیال بھی بالکل غلط اوربے بنیاد ہے ،مشاہدہ ہے کہ تہذیب اخلاق ،تصحیح اعمال اورتعلیم کے لئے کسی بھی دورمیں سرمایہ کی محتاجی نہیں ہوئی ،بلکہ ان چیزوں کےلئے بہترماحول ہوناضروری ہے ۔ ۳۔عورتوں کی صحت وتندرسی کی خاطر:سویہ قابل توجہ ہے کہ اگرکسی تجربہ کارطبیب کی نظرمیں عورت کی صحت حمل برداشت کرنے کے لائق نہ ہو،توشخصی اورانفرادی طورپراس عورت کے حق میں ایسے جائزطریقوں کے استعمال کی اجازت دی جاسکتی ہے ،جواس کی جان بچانے اوراس کی جسمانی صحت کے لئے ضروری اورمناسب ہو،لیکن یہ انفرادی معاملہ ہمہ گیرقومی منصوبہ بننے کے قابل نہیں ہوگا،کیونکہ عورتوں کی حالتیں مختلف ہوتی ہیں ،ممکن ہے کہ ایک عورت ایک بچے کی ولادت کوبرداشت نہ کرسکے گی اوربعض عورتیں متعدد اولاد کی پیدائش کے بعدبھی تندرست رہتی ہیں۔(جدیدفقہی مباحث: 1/241،242 ) اس تیسری صورت میں ضبط تولید کس طرح ہوسکتی ہے تواس کی تفصیل یہ ہے کہ ضبط تولید( بچوں کی پیدائش کوروکنا) کی تین صورتیں ہیں : ۱۔ قطع نسل :یعنی مردوعورت میں سے کسی ایک کے بھی اعضاءتناسل وتوالدمیں داخلی یاخارجی ایساتغیرکیاجائے جس کی بناءپر دائمی وابدی تناسل کاسلسلہ منقطع ہوجائے یہ صریح ناجائزوحرام ہے ۔ ۲۔منع حمل :جس کاحاصل صرف یہ ہوتاہے کہ مردوعورت میں قوت تولید باقی رہے،لیکن وقتی ضرورت کے تحت اندرونی یابیرونی اعضاء تناسل میں ایساانتظام کردیاجاتاہے، جس کی وجہ سے حمل نہیں ٹہرسکتا،جس کی صورتیں عمومامعروف ہیں ،اس میں ہروہ صورت داخل ہے جوقوت تولید کے بقاء کے ساتھ مانع حمل ہو،اس صورت کاحکم یہ ہے کہ یہ مباح ہے ،اورمباح کامطلب یہ ہے کہ اپنی ذات کے اعتبارسے تواس میں ثواب وعذاب ،طاعت ومعصیت کاپہلونہیں ہوتا،البتہ مباحات اغراض ومقاصد کے تابع ہوتے ہیں ، اگرکسی جائزاورامرمباح کواچھی نیت سے کیاجائے توباعث ثواب ہوگا یعنی اگراس میں آپ کی نیت یہ ہوکہ بچوں کی تربیت کرنامشکل ہوگی اورعورت کی صحت بھی ٹھیک رہے گی تویہ جائزہے ۔اوراگربری نیت سے کیاجائے توباعث گناہ ہوگاجیسے آپ کی نیت یہ ہوکہ مغرب کی اندھی تقلید اوریہ کہ زیادہ بچے ہوگئے توان کوکھلاؤں گاکہاں سے تویہ ناجائزاورحرام ہوگا۔ ۳۔ اسقاط حمل: یعنی حمل ٹہرجانے کے بعداس کوضائع کردینا۔ اس کاحکم یہ ہے کہ بغیرکسی مجبوری کے خواہ مخواہ اسقاط حمل مکروہ ہے اگرچہ اس میں روح نہ پڑی ہواورحمل میں تقریبا4مہینے میں روح پڑجاتی ہے ۔ اوراگرکوئی عذرہومثلامہلک بیماری لاحق ہے یاعورت سخت ترین کمزوری کاشکارہے یاجلدی جلدی بچہ ہونے سے عورت یابچہ کاشدیدضررہوگاتوایسی صورت میں اس وقت اسقاط حمل جائزہے جب تک کہ جان نہ پڑی ہویعنی ۱۲۰ دن سے قبل ورنہ جائزنہیں ۔ اوراگراضطرار کی کیفیت ہویعنی یقینی طورپرمعلوم ہوکہ عورت کے پیٹ میں بچہ رہنے سے اس کی جان کاخطرہ ہو،جیساکہ بعض حالات میں ہوتاہے ،ایسی صورت میں اگرحمل میں جان نہ پڑی ہوتوتب تواسقاط حمل جائز ہےہی ،اوراگرجان پڑگئی ہواورحمل کے باقی رکھنے میں عورت کی جان کے خطرہ کاپورایقین ہوتوایسی صورت میں بھی حمل کااسقاط جائزہے ۔ صورت مسئولہ میں مزیدبچوں کی پیدائش کوروکنے کے لئے آپریشن کروانے کایہ حکم ہے کہ اگرشدیدمجبوری ہے اورماہراوردیانتدارمسلم طبیب کہے کہ اگربیوی کاآپریشن نہ کروایاتوجان کوخطرہ ہوگاتوگنجائش ہے ورنہ بصوررت دیگراگربیوی تندرست ہے بچہ جننے کی صلاحیت رکھتی ہے توآپریشن کرواناناجائزوحرام ہے ۔ نیز ایسی صورت میں حمل کوروکنے کے لئے ایسی تدابیرکرناجس سے حمل نہ ٹہرے یعنی مانع حمل دوائیں وغیرہ استعمال کرنا،بطریق اولی جائزہوگا ۔
حوالہ جات
قال اللہ تبارک وتعالی فی سورۃ ھود :آیت 06 : ومامن دابۃ فی الارض الاعلی اللہ رزقہا۔ "وفی سورۃ الانعام "آیت 151 : ولاتقتلوأولادکم من املاق نحن نرزقکم وایاھم ۔ "وفی سورۃ بنی اسرائیل" آیت31: ولاتقتلوااولادکم خشیۃ املاق نحن نرزقھم وایاکم ،ان قتلھم کان خطأ کبیرا۔ "وفی سورۃ طہ "آیت 132 : وأمرأھلک بالصلاۃ واصطبرعلیھالانسئلک رزقانحن نرزقک۔ "صحیح البخاری" 2/759 : عن سعدابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تعالی عنہ یقول ردرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی عثمان بن مظغون رضی اللہ عنہ التبتل ولواذن لہ لاختصینا۔ "صحیح مسلم " 1/464 : عن ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالی عنہ انہ اخبرہ قال اصبناسبایافکنانعزل ثم ساٌلنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن ذالک فقال لناوانکم لتفعلون وانکم لتفعلون وانکم لتفعلون، مامن نسمۃ کائنۃ الی یوم القیامۃ الاوھی کائنۃ ۔ قال العلامۃ النووی رحمہ اللہ تحت ھذالحدیث ثم ھذہ الاحادیث مع غیرھایجمع بینہمابأن ماورد فی النہی محمول علی کراھۃ التنزیہ وماوردفی الاذن فی ذالک محمول علی انہ لیس بحرام ولیس معناہ نفی الکراھۃ ۔ "مجلة مجمع الفقه الإسلامي " 5 / 321: وفي وصايا الرسول صلى الله عليه وسلم: (( تزوجوا الودود الولود فإني مكاثر بكم الأمم يوم القيامة )وقال أيضًا: (( من ترك الزواج مخافة العيال فليس منا۔ "سنن أبي داود " 1 / 625: حدثنا أحمد بن إبراهيم ثنا يزيد بن هارون أخبرنا مستلم بن سعيد [ ابن أخت منصور بن زاذان ] عن منصور يعني ابن زاذان عن معاوية بن قرة عن معقل بن يسار قال جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال إني أصبت امرأة ذات حسب وجمال وإنها لا تلد أفأتزوجها ؟ قال " لا " ثم أتاه الثانية فنهاه ثم أتاه الثالثة فقال " تزوجوا الودود الولود فإني مكاثر بكم الأمم " . حسن صحيح۔ "جامع الأحاديث لجلال الدين" 23 / 66: 25577- يا ابن عباس بيت لا صبيان فيه لا بركة فيه وبيت لا خل فيه قفار لأهله وبيت لا تمر فيه جياع أهله (أبو الشيخ عن ابن عباس)۔ "فيض القدیر لزيد المناوي " 8 / 270: (بيت لا صبيان فيه) يعني لا أطفال فيه ذكورا أو إناثا (لا بركة فيه) ظاهر كلام المصنف أن هذا هو الحديث بكماله والأمر بخلافه بل بقيته عند مخرجه أبو الشيخ بيت لا خل فيه قفار أهله وبيت لا تمر فيه جياع أهله اه (أبو الشيخ) في الثواب (عن ابن عباس) وفيه عبد الله بن هارون الفروي أورده الذهبي في الضعفاء وقال : له مناكير واتهمه بعضهم أي بالوضع وقدامة بن محمد المدني خرجه ابن حبان۔ "تخريج أحاديث الكشاف " 2 / 443: الحديث التاسع والعشرون :عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: التمسوا الرزق بالنكاح ۔ قلت لم يروه بهذا اللفظ إلا الثعلبي ورواه بمعناه الحاكم في المستدرك في النكاح من حديث أبي السائب سلم ابن جنادة حدثنا أبو أسامة حدثنا هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ( تزوجوا النساء فإنهن يأتينكم بالمال )انتهى ۔وقال حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه لتفرد سلم بن جنادة به مسندا وهو ثقة مأمون۔ "ردالمحتار"10/243،242: ( ويعزل عن الحرة ) وكذا المكاتبة نهر بحثا ( بإذنها ) لكن في الخانية أنه يباح في زماننا لفساده قال الكمال : فليعتبر عذرا مسقطا لإذنها ، وقالوا يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج۔۔ ( قوله لكن في الخانية ) عبارتها على ما في البحر : ذكر في الكتاب أنه لا يباح بغير إذنها وقالوا في زماننا يباح لسوء الزمان .ا هـ . ( قوله قال الكمال ) عبارته : وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها لفساد الزمان ، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطا لإذنها . فقد علم مما في الخانية أن منقول المذهب عدم الإباحة وأن هذا تقييد من مشايخ المذهب لتغير بعض الأحكام بتغير الزمان ، وأقره في الفتح وبه جزم القهستاني أيضا حيث قال : وهذا إذا لم يخف على الولد السوء لفساد الزمان وإلا فيجوز بلا إذنها .لكن قول الفتح فليعتبر مثله إلخ يحتمل أن يريد بالمثل ذلك العذر ، كقولهم : مثلك لا يبخل .ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد ، أو في دار الحرب فخاف على الولد ، أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل وكذا ما يأتي في إسقاط الحمل عن ابن وهبان فافهم ۔ مطلب في حكم إسقاط الحمل ( قوله وقالوا إلخ ) قال في النهر : بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل ؟ نعم يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوما ، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة كذا في الفتح ، وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج . وفي كراهیة الخانية : ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد ضمنه لأنه أصل الصيد فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها ا هـ قال ابن وهبان : ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه . ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا ؟ اختلفوا فيه ، وكان الفقيه علي بن موسى يقول : إنه يكره ، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم ، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان : فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر ، أو أنها لا تأثم إثم القتل ا هـ . وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح ، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه ، والله تعالى الموفق ا هـ كلام النهر ح . [ تنبيه ] أخذ في النهر من هذا ومما قدمه الشارح عن الخانية والكمال أنه يجوز لها سد فم رحمها كما تفعله النساء مخالفا لما بحثه في البحر من أنه ينبغي أن يكون حراما بغير إذن الزوج قياسا على عزله بغير إذنها . قلت : لكن في البزازية أن له منع امرأته عن العزل نعم النظر إلى فساد الزمان يفيد الجواز من الجانبين ۔ فما في البحر مبني على ما هو أصل المذهب ، وما في النهر على ما قاله المشايخ والله الموفق .
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب