021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عورت کاملازمت (job (کے لئے باہرجانا
54783 جائز و ناجائزامور کا بیانپردے کے احکام

سوال

کیااسلام میں عورت مردکی طرح مزدوری (job)کرکے اپنے لئے پیسے کماسکتی ہے یعنی وہ کسی دفترمیں یاکسی کارخانے میں یاکسی دوسرے ادارے وغیرہ میں کام کرکے اپنی گذربسرکرسکتی ہے ،خواہ اس کی مجبوری ہوخواہ وہ یہ کام اپنے شوق سے کرے ۔ اسلام میں اس کاکیاحکم ہے ؟قرآن وحدیث کی روشنی میں مفتیان کرام اس سلسلے میں اپنی رائے سے آگاہ فرمائیں۔ o

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب نفقہ اورضروریات زندگی کاکوئی اورانتظام نہ ہوسکے توایسی حاجت اورشدید ضرورت کے وقت شرعی حدودکی رعایت رکھتے ہوئے عورت کا مزدوری (job )کرناجائزہےاورپیسے بھی کماسکتی ہے بشرطیکہ باپردہ ہواور اظہارزینت کے ساتھ نہ نکلی ہو اورمردوں سے اختلاط نہ ہو،جبکہ بغیرضرورت شدیدہ ویسے ہی شوق کے لئے یادولت میں مزید اضافہ کے لئے گھرسے نکلناجائزنہیں ، ،عورتوں کوعام حالات میں گھرکے اندررہنے کاحکم دیاگیاہے ،اسی لئے قرآن پاک میں ازواج مطہرات کے لئے خاص طورپراورباقی مومنات کے لئے عام طورپر یہ حکم ہے کہ وہ گھرمیں ہی رہیں :وقرن فی بیوتکن ولاتبرجن تبرج اللجاھلیۃ الاولی أقمن الصلاۃ وآتین الزکاۃو أطعن اللہ ورسولہ ۔الاحزاب ۳۳ )نیز گھرسے باہرjobمزدوری کاکام عورتوں کاہے ہی نہیں ،بلکہ مردوں کاکام ہے ،اس کی سب سے بڑی مثال حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں حضرت علی اورحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہماکی ہے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کام کی تقسیم اس طرح فرمائی کہ گھریلوامور کوانجام دینے کی ذمہ داری حضرت فاطمہ پرڈالی اورگھرسے باہرکے امورکی خدمت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپردکی، نیز جب تک نکاح نہ ہواہوتو لڑکی کانققہ والدپرہوتاہے اورنکاح کے بعدشوہرپر، جس کی بناءپر عوت کوملازمت کرنے یاکوئی دوسراذریعہ معاش تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ لیکن یہ بات واضح رہے کہ عورت کانکلنادرج بالاشرطوں کے ساتھ جائزہے ،اگران شرائط کی رعایت کے بغیرنکلے اورپیسے کمائے تواس کی کمائی حلال ہوگی اس کی کمائی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا،ہاں البتہ ان شرائط کی رعایت نہ کرنے کاالگ سے گناہ ہوگاجس سے اجتناب لازم ہے ۔
حوالہ جات
"تفسير ابن كثير" 6 / 409، 410: وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآَتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (33) وقوله: { وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ } أي: الزمن بيوتكن فلا تخرجن لغير حاجة. ومن الحوائج الشرعية الصلاة في المسجد بشرطه، كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تمنعوا إماء الله مساجد الله، وليخرجن وهن تَفِلات" وفي رواية: "وبيوتهن خير لهن" وقال الحافظ أبو بكر البزار: حدثنا حميد بن مَسْعَدةحدثنا أبو رجاء الكلبي، روح بن المسيب ثقة، حدثنا ثابت البناني عن أنس، رضي الله عنه، قال: جئن النساء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلن: يا رسول الله، ذهب الرجال بالفضل والجهاد في سبيل الله تعالى، فما لنا عمل ندرك به عمل المجاهدين في سبيل الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من قعد -أو كلمة نحوها -منكن في بيتها فإنها تدرك عمل المجاهدين في سبيل الله". ثم قال: لا نعلم رواه عن ثابت إلا روح بن المسيب، وهو رجل من أهل البصرة مشهور ۔ وقال البزار أيضا: حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عمرو بن عاصم، حدثنا همام، عن قتادة، عن مُوَرِّق، عن أبي الأحوص، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إن المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان، وأقرب ما تكون بروْحَة ربها وهي في قَعْر بيتها".ورواه الترمذي، عن بُنْدَار، عن عمرو بن عاصم، به نحوه ۔ وروى البزار بإسناده المتقدم، وأبو داود أيضا، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "صلاة المرأة في مَخْدعِها أفضل من صلاتها في بيتها، وصلاتها في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها" وهذا إسناد جيد۔ وقوله تعالى: { وَلا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الأولَى } قال مجاهد: كانت المرأة تخرج تمشي بين يدي الرجال، فذلك تبرج الجاهلية. وقال مقاتل بن حيان: { وَلا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الأولَى } والتبرج: أنها تلقي الخمار على رأسها، ولا تشده فيواري قلائدها وقرطها وعنقها، ويبدو ذلك كله منها، وذلك التبرج، ثم عمت نساء المؤمنين في التبرج۔ " البحر الرائق " 11 / 133: ( قوله ومعتدة الموت تخرج يوما وبعض الليل ) لتكتسب لأجل قيام المعيشة ؛ لأنه لا نفقة لها حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلا يحل لها أن تخرج لزيارة ولا لغيرها ليلا ولا نهارا . والحاصل أن مدار الحل كون خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها كذا في فتح القدير۔ "المبسوط " 18 / 453: ويكره له أن يستأجر امرأة حرة أو أمة يستخدمها ويخلو بها لقوله صلى الله عليه وسلم { لا يخلون رجل بامرأة ليس منها بسبيل فإن ثالثهما الشيطان } ، ولأنه لا يأمن من الفتنة على نفسه ، أو عليها إذا خلا بها ، ولكن هذا النهي لمعنى في غير العقد فلا يمنع صحة الإجارة ووجوب الأجر إذا عمل كالنهي عن البيع وقت النداء۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب