ان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے کرام اورمفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے ایک گاڑی کمپنی سے ایک کروڑپچاس لاکھ کی خریدی،جس میں 50 لاکھ کی رقم کمپنی کواداءکرچکاہے ،اورباقی ایک کرورڑ کی رقم ماہانہ 2 لاکھ اقساط کی صورت میں اداءکرنی ہیں ،اب پوچھنایہ ہے کہ جب سال کے آخرمیں زکاۃ کی رقم کاحساب کیاجائے گاتومذکورہ بالاقرض پورامنہاکیاجائے گا،یاصرف ماہانہ اقساط منہاکرکے زکاۃ اداء کی جائے گی ،قرآن وحدیث اورفقہ کی روشنی میں جواب دے کرعنداللہ ماجورہوں ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
وہ قرض جس کی ادائیگی فوری نہیں وہ زکاۃ سے مانع نہیں ہوتا،اس لئے پورے مال کے حساب سے زکاۃ اداء کی جائے گی ،البتہ جس مہینے زکاۃ اداء کرنی ہوتواس مہینے کی قسط منہاکی جاسکتی ہے ۔
حوالہ جات
"رد المحتارعلی الدرالمختار" 6 / 460:
( وسببه ) أي سبب افتراضها ( ملك نصاب حولي ) نسبة للحول لحولانه عليه ( تام ) بالرفع صفة ملك ، خرج مال المكاتب .
أقول : إنه خرج باشتراط الحرية على أن المطلق ينصرف للكامل ، ودخل ما ملك بسبب خبيث كمغصوب خلطه إذا كان له غيره منفصل عنه يوفي دينه ( فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد ) سواء كان لله كزكاة وخراج أو للعبد ، ولو كفالة أو مؤجلا ۔
قوله أو مؤجلا إلخ ) عزاه في المعراج إلى شرح الطحاوي ، وقال : وعن أبي حنيفة لا يمنع . وقال الصدرالشهيد : لا رواية فيه ، ولكل من المنع وعدمه وجه .زاد القهستاني عن الجواهر : والصحيح أنه غير مانع۔