021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قرض پرکمیشن لینا،قرض پرزکوۃ کی تفصیل
54871خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

کیافرماتےہیں علمائے کرام اورمفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زیدکے پاس 6 بڑی گاڑیاں ہیں ،جوPSOکمپنی کے ٹھیکیدارکی نگرانی میں چلتی ہیں ،دونوں فریقین میں معاملے کی نوعیت اس طرح کی ہے کہ ٹھیکیدار،گاڑیوں کے مالک یعنی زیدکوگاڑی کی قیمت کے مطابق 25 پرسنٹ قرض دیتاہے ،مثلاایک کروڑکی گاڑی ہے توٹھیکیدارمالک کو25 لاکھ قرض دے گا،اس کے علاوہ گاڑیوں کی ہرقسم کی ضرورت یعنی ٹائروں کی تبدیلی ،ڈرائیوروں کی تنخواہیں ،اورمرمت وغیرہ بھی قرض کی صورت میں ٹھیکیداراداکرتارہتاہے ،پھرجوں جوں گاڑیوں کی انکم حاصل ہوتی رہتی ہیں ،ٹھیکیداراس انکم سے اپناکمیشن اورقرض وصول کرتارہتاہے یہاں تک کہ جب قرض کم رہ جاتاہے توگاڑیوں کامالک اپنی ضرورت کے مطابق ٹھیکیدارسے مزیدقرض وصول کرلیتاہے ۔ یوں یہ سلسلہ چلتارہتاہے اب پوچھنایہ ہے کہ اس صورت مسئلہ میں گاڑیوں کامالک یعنی زید جوہروقت ٹھیکیدارکامقروض رہتاہے جب زکوۃ اداء کرے گاتوکیاٹھیکیدارکے ان قرضوں کونکال کرزکوۃ اداء کرے گایاپھران قرضوں کوکاروباری حصہ شمارکرکے ان کی بھی زکوۃ اداءکرے گا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس معاملے میں اگرٹھیکیدار قرض کمیشن کے عوض میں دیتاہے تو یہ معاملہ ہی ناجائزہے،کیونکہ ہروہ قرض جس پر کوئی سہولت یاکچھ نفع طے کرکے لیاجائے ،وہ سودہونے کی وجہ سے ناجائزوحرام ہے ،صورت مسئولہ میں قرض دے کرکمیشن لیناقرض پرایک اضافی نفع ہے جوناجائز ہے ۔ البتہ ان قرضوں کوزکاۃ سے منہاکیاجائے گایانہیں تواس میں یہ تفصیل ہے کہ قرض دوقسم کے ہوتے ہیں ،ایک تومعمولی قرضے ہیں جن کوانسان اپنی بنیادی اورہنگامی ضروریات کے لئے مجبورلیتاہے دوسری قسم کے قرضے وہ ہیں جوبڑے بڑے سرمایہ دارپیداواری اغراض کے لئے لیتے ہیں ،مثلافیکٹریاں لگانے یامشینریاں خریدنے یامال تجارت امپورٹ کرنے کے لئے ۔ پہلی قسم کے قرضے تومجموعی مالیت سے منہاہوجائیں گے اوران کومنہا کرنے کے بعد زکوۃ اداکی جائے گی اوردوسری قسم کے قرضوں میں یہ تفصیل ہے کہ اگرکسی شخص نے تجارت کی غرض سے قرض لیا،اوراس قرض کوایسی اشیاء خریدنے میں استعمال کیاجوقابل زکوۃ ہیں،مثلااس قرض سے خام مال خریدلیا یامال تجارت خریدلیا،تواس قرض کومجموعی مالیت سے منہاکریں گے ،لیکن اگراس قرض کوایسے اثاثے خریدنے میں استعمال کیاجوناقابل زکوۃ ہیں مثلافیکٹری کی عمارت بنانے وغیرہ ،تواس قرض کومجموعی مالیت سے منہانہیں کریں گے ۔ صورت مسئولہ میں چونکہ اس قرض سے نا قابل زکوۃ مال (گاڑیاں کاروبار کےلئے )خریداہے یاان کی مرمت کی ہے ،توان قرضوں کومنہانہیں کیاجائے گا،مجموعی رقم سے زکوۃ ادا کی جائے گی ،البتہ اگریہ قرضے رقم کی شکل میں موجودہوں توان کومنہاکرکے باقی سے زکوۃ اداکی جائے گی ۔
حوالہ جات
"رد المحتار علی الدرالمختار" 20 / 93: كل قرض جر نفعا حرام ( قوله كل قرض جر نفعا حرام ) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر۔ "تبيين الحقائق" 16 / 427: وذلك لأن القرض تمليك الشيء بمثله فإذا جر نفعا صار كأنه استزاد فيه الربا فلا يجوز ؛ ولأن القرض تبرع وجر المنفعة يخرجه عن موضعه ، وإنما يكره إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد ، وإذا لم تكن مشروطة فيه يكون المقترض متبرعا بهامشروطا كما علم مما نقله عن البحر۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب