021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عورتوں کامخلوط تعلیمی نظام میں ملازمت کرنا
55073 جائز و ناجائزامور کا بیانپردے کے احکام

سوال

میرانام شازیہ ہے، تقریباتین سال سے میں مدرسہ میں شعبہ عصری علوم میں معلمہ کے فرائض سرانجام دے رہی ہوں، میرے شوہرکاانتقال ہوچکاہے ،تین بچے ہیں ،جس میں ایک لڑکا12 سال کا،دولڑکیاں ایک 10 سال اوردوسری لڑکی تین سال کی ہے ،شوہرکی وفات کے بعد سے کفالت کی ذمہ داری میری ہے ۔ میری تاحال تنخواہ 8430 ہے، جس میں دونوں بچوں کی ماہانہ فیس جوفی بچہ 1100 روپے ہے ،بجلی کا بل ،گیس کابل وغیرہ ماہانہ 1500 تک ہے، ایک بی سی جوڈھائی ہزارکی ہے ،بچی کے لئے دودھ وغیرہ کاخرچ تقریبا 1000 روپے اورگھرکاخرچ سب ملا کربڑی مشکل سے گذارہ ہورہاہے ،کبھی کبھی اتنے حالات تنگ ہوجاتے ہیں کہ بچوں کوبغیرکھلائے ہی سلاناپڑتاہے ۔ ایسے حالات میں مجھے اپنے پرانے سکول سے ملازمت کی آفرکی گئی ہے جوکہ میری والدہ کی رہائش کے قریب ہے وہاں پرمیراوظیفہ 15 ہزار سے شروع ہوگا،کیونکہ انتظامیہ میں میراشمارہوگا،مگرمجھے وہاں اب جانااچھانہیں لگ رہا،کیونکہ وہاں مخلوط نظام تعلیم کاسلسلہ ہے ،نامحرم لوگوں سے مستقل رابطہ کرناپڑے گا۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس معاملے میں آپ میری راہنمائی فرمائیں کہ میں وہاں ملازمت کروں یامدرسے والے میری مددکردیں تومیں احسن آبادمیں ہی آپ جیسے اللہ والے لوگوں کی محبت میں اپنے بچوں کی پرورش کروں ۔ سوال :میں مکمل شرعی پردہ کرتی ہوں ،اورمعاشی حالات میں کمی کے باعث کیامیں مخلوط تعلیمی ادارے میں ملازمت کے لئے حامی بھرسکتی ہوں یانہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قرآن پا ک میں ازواج مطہرات کوخاص طورپراورباقی مومنات کوعام طورپریہ حکم دیاگیاہے کہ وہ گھرمیں رہیں ،لہذاملازمت کے لئے گھرسے باہرنکلناعام حالات میں جائز ہی نہیں ،یہ مردوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ زیرکفالت عورتوں کے خرچ کاانتظام کریں ،لیکن اگرنفقہ اورضروریات زندگی پوراکرنے والاکوئی نہ ہو،اورگھرمیں رہتے ہوئے سلائی کڑھائی یاٹیوشن پڑھاکر بھی انتظام نہ کیاجاسکے توایسی شدیدضرورت کے وقت شرعی حدودکی رعایت رکھتے ہوئے گھرسے باہرملازمت کے لئے نکلنے کی گنجائش ہے بشرطیکہ بے پردہ اوراظہارزینت کے ساتھ نہ نکلے۔ مخلوط تعلیمی نظام میں پردہ کامکمل انتظام اورپابندی کرنااوبدنظری سے بچنا بہت مشکل ہےاورمخلوط تعلیم کے مفاسد بھی بہت سامنے آرہے ہیں،اس لئے ایک دینی ادارہ چھوڑکر مخلوط تعلیمی نظام میں جانا بہترنہیں ہے،تاہم اگرگھرکے اخراجات میں بہت دقت پیش آرہی ہواوراس کے برے اثرات بچوں کی پرورش اوردینی تربیت پربھی پڑرہے ہوں تومندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جانے کی گنجائش ہے : ۱۔ پردے کامکمل اہتمام ہو۔ ۲۔ خوشبولگاکراورمزین ہوکرنہ جائیں ۔ ۳۔مردوں سے بقدرضرورت بات چیت سے زائد بے تکلفی اورہنسی مزاح سے سخت اجتناب کریں ۔ باقی ادارہ ام حبیبہ آپ کے ساتھ تعاون کرسکتاہے یانہیں ،یہ دارالافتاء کاکام نہیں ،اس کے لئے آپ ادارے کی انتظامیہ سے رجوع کرسکتی ہیں۔
حوالہ جات
"تفسير ابن كثير " 6 / 409، 410: وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآَتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (33) وقوله: { وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ } أي: الزمن بيوتكن فلا تخرجن لغير حاجة. ومن الحوائج الشرعية الصلاة في المسجد بشرطه، كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تمنعوا إماء الله مساجد الله، وليخرجن وهن تَفِلات" وفي رواية: "وبيوتهن خير لهن" وقال الحافظ أبو بكر البزار: حدثنا حميد بن مَسْعَدةحدثنا أبو رجاء الكلبي، روح بن المسيب ثقة، حدثنا ثابت البناني عن أنس، رضي الله عنه، قال: جئن النساء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلن: يا رسول الله، ذهب الرجال بالفضل والجهاد في سبيل الله تعالى، فما لنا عمل ندرك به عمل المجاهدين في سبيل الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من قعد -أو كلمة نحوها -منكن في بيتها فإنها تدرك عمل المجاهدين في سبيل الله". ثم قال: لا نعلم رواه عن ثابت إلا روح بن المسيب، وهو رجل من أهل البصرة مشهور ۔ وقال البزار أيضا: حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عمرو بن عاصم، حدثنا همام، عن قتادة، عن مُوَرِّق، عن أبي الأحوص، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إن المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان، وأقرب ما تكون بروْحَة ربها وهي في قَعْر بيتها".ورواه الترمذي، عن بُنْدَار، عن عمرو بن عاصم، به نحوه ۔ وروى البزار بإسناده المتقدم، وأبو داود أيضا، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "صلاة المرأة في مَخْدعِها أفضل من صلاتها في بيتها، وصلاتها في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها" وهذا إسناد جيد۔ وقوله تعالى: { وَلا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الأولَى } قال مجاهد: كانت المرأة تخرج تمشي بين يدي الرجال، فذلك تبرج الجاهلية. وقال مقاتل بن حيان: { وَلا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الأولَى } والتبرج: أنها تلقي الخمار على رأسها، ولا تشده فيواري قلائدها وقرطها وعنقها، ويبدو ذلك كله منها، وذلك التبرج، ثم عمت نساء المؤمنين في التبرج.۔ "البحر الرائق " 11 / 133: ( قوله ومعتدة الموت تخرج يوما وبعض الليل ) لتكتسب لأجل قيام المعيشة ؛ لأنه لا نفقة لها حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلا يحل لها أن تخرج لزيارة ولا لغيرها ليلا ولا نهارا . والحاصل أن مدار الحل كون خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها كذا في فتح القدير۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب