ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ ہمارے والد صاحب زکوۃ دیتے رہے یا نہیں۔ وہ کھلے دل سے خرچ تو کیا کرتے تھے لیکن یہ معلوم نہیں کہ وہ باقاعدگی کے ساتھ زکوة ادا کرتے رہے یا نہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
زکوة کے بارے میں حکم یہی ہے اگر میت کے ذمہ زکوة باقی ہونے کی صورت میں چاہئےتھا کہ خود زکوة ادا کردیتا ، اگر اس کا موقع نہیں ملا تو وہ ورثاءکو وصیت کر جاتا،لیکن جب انہوں وصیت نہیں کی اور ورثاء کو بھی یقینی طور پر معلوم نہیں کہ زکوة مرحوم کے ذمہ لازم ہے یانہیں تواب میت کے مال سے زکوة اداء کرنا ورثا ء کے ذمہ لازم نہیں ، البتہ بالغ ورثاء اگر چاہیں تو اندازہ کرکے کچھ مال اپنی ذاتی رقم میں سے میت کی زکوة کی نیت سے فقراء کو دیدیں تو بہتر ہےتاکہ زکوة ذمہ میں ہو تو ساقط ہوجائے ورنہ میت کی طرف سے صدقہ ہوجائے گا۔ اور اگر ورثاء ادا نہ کریں تب بھی کوئی گناہ نہیں ۔
حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 124)
" ومن مات وعليه قضاء رمضان فأوصى به أطعم عنه وليه لكل مسكينا نصف صاع من بر أو صاعا من تمر أو شعير " لأنه عجز عن الأداء في آخر عمره فصار كالشيخ الفاني ثم لا بد من الإيصاء عندنا خلافا للشافعي رحمه الله وعلى هذا الزكاة هو يعتبره بديون العباد إذ كل ذلك حق مالي تجري فيه النيابة.
ولنا أنه عبادة ولا بد فيه من الاختيار وذلك في الإيصاء دون الوراثة لأنها جبرية، ثم هو تبرع ابتداء حتى يعتبر من الثلث والصلاة كالصوم باستحسان المشايخ وكل صلاة تعتبر بصوم يوم هو الصحيح "