021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نماز روزوں کے فدیہ کاحکم
55181.1روزے کا بیانوہ اعذار جن میں روزھ رافطارکرنا) نہ رکھنا( جائز ہے

سوال

میرے والد صاحب مرحوم چند روز پہلے وفات پا گئے ہیں۔ اس ضمن میں ایک اہم مسئلے کا حل آپ سے مطلوب ہے۔ جناب والد صاحب کی زندگی بھر یہ معمول رہا کہ اﷲ رب العزت کے راستے میں خرچ کرتے تھے، مساجد بھی بنوائی اور دین کے ساتھ خیر خواہی کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا احساس بھی ضروری ہے کہ باوجود خود نماز کے پابند نہ تھے۔ لہذا ہماری خواہش ہے کہ ان کی میراث سے پہلے ان کی قضا نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کریں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر کسی کے ذمہ نمازیں اور روزے وغیرہ رہ جائیں اور موت کا وقت قریب نظر آئے ،صحت یابی کی کوئی امید نہ ہو تواس کے ذمہ لازم ہے کہ فدیہ ادا کرنے کی وصیت کرے ایسی صورت میں ورثاء کے ذمہ شرعالازم ہےکہ میت کے مال کے ایک تہائی حصہ کی حد تک اس وصیت پر عمل کریں اگر مرنے والے نے وصیت نہیں کی تو فدیہ اداکر نا ورثاء پر لازم نہیں ۔ لہذا صورت مسؤلہ میں چونکہ مرحوم نے فدیہ کی وصیت نہیں کی ہے اس لئے ورثاء کے ذمہ فدیہ ادا کرنا لازم نہیں ہے تاہم اگر بالغ ورثاء اپنی خوشی سے اپنی ذاتی رقم سے یا سب ورثاء بالغ ہوں تو آپس کی رضا مندی سے میراث کے مال سے فدیہ ادا کردیں تو اللہ تعالی کی ذات سے امید یہی ہے کہ فدیہ قبول فرمائیں گے اور میت کی مغفرت فرمادینگے۔
حوالہ جات
رد المحتار (5/ 331) قال العلامة الحصکفی رحمہ اللہ تعالی ؛( ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر ) كالفطرة ( وكذا حكم الوتر ) والصوم ، وإنما يعطي ( من ثلث ماله ) وقال ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی ؛ ( قوله يعطى ) بالبناء للمجهول : أي يعطي عنه وليه : أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى ، وإلا فلا يلزم الولي ذلك لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار ، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر ، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير ، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا ، ويبرأ من عليه الحق بذلك إمداد . ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه . وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات إنه يجزيه إن شاء الله تعالى ، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص ، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطا لاحتمال كون النص فيه معلولا بالعجز فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولا تكون الفدية برا مبتدأ يصلح ماحيا للسيئات فكان فيها شبهة كما إذا لم يوص بفدية الصوم فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / فیصل احمد صاحب