021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وارث کے حق میں وصیت غیر معتبر ہے
55201.10وصیت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

والد محترم نے سارے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے گواہوں کی موجودگی میں یہ وصیت فرمائی تھی کہ میرے اس مکان میں صرف میرے دو بیٹوں نے سارا تعاون کیا اور میرے باقی بیٹوں نے کوئی تعاون نہیں کیا۔ اس لئے میرے اس مکان میں صرف میرے چار بیٹوں کا حصہ ہے۔ 2بیٹے جنہوں نے مکان خریدا اور2چھوٹے بیٹے جو پڑھ رہے تھے ان کے علاوہ کسی کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ گواہان موجود ہیں کیا والد محترم کی وصیت نافذ ہو گی ؟ گواہ موجود ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

والد کی وصیت  اولاد کے حق میں شرعا غیر معتبر ہے اگر چہ  اس کے گواہان موجود ہیں لہذا اگر والد  نے اپنی زندگی میں  گھر  تقسیم کرکے خود دستبر دار  ہوکر  چاروں بیٹوں کو  ان کا حصہ  حوالہ  کرکے ہبہ نہ کیا تھا تو وہ گھر   میراث  میں داخل ہے اور تمام ورثہ  کا  اس میں حق ہے ۔

                                      لقولہ علیہ السلام ؛ان اللہ تعالی اعطی کل ذی حق حقہ الا لاوصیة    للوارث ﴿اخرجہ  احمد والترمذی ﴾

والد  کا ترکہ شرعی  اصول کے مطابق  تقسیم ہوگا جو یہ ہے  کہ بیوہ کو اٹھواں حصہ دیا جائے گا ،بقیہ مال کو پندرہ حصوں میں   تقسیم کرکے   بیٹی کو ایک حصہ  دیا جائے گا  اور ساتوں بیٹوں  میں سے ہر ایک کو دو دو حصے  ۔

اور  فیصد  کے اعتبار   سے  اس طرح  ہوگا

بیوہ کا حصہ= ٪12.5

لڑکی کا حصہ=٪5.833

ساتوں لڑکوں میں سے ہر ایک کا حصہ برابر ہے٪ 11.666  کے۔

حوالہ جات
لقولہ علیہ السلام ؛ان اللہ تعالی اعطی کل ذی حق حقہ الا لاوصیة للوارث ﴿اخرجہ احمد والترمذی ﴾
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب