021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترکہ موروثی مکان میں بعض ورثاء کی رہائش
55201.8اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

کراچی میں مکان کو خریدے ہوئے تقریباً 20سے22سال کا عرصہ ہو گیا ہے اور والدین کو انتقال ہوئے تقریباً8سے 10سال ہو گئے ہیں۔ اب جب چھوٹے بھائی تقسیم کی بات کرتے ہیں تو بڑے والے بھائی صاحبان کبھی کہتے ہیں کہ آپ تینوں بھائی 20سے 22سال تک کرایہ کے مکان میں رہیں یا پھر اتنی مقدار کی رقم ادا کریں اس کے بعد تقسیم کی بات ہوگی اور اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ہم لوگ اتنا عرصہ کرائے کے مکان میں رہے ہیں۔ 

جبکہ حقیقت یہ ہے خدا گواہ ہے کہ ہمارے بڑے بھائی صاحبان اپنی شادیوں سے بھی پہلے سے والدین کے ساتھ نہیں رہتے تھے اور شادیوں کے بعد ان کا سامان جہیز وغیرہ پہلے سے الگ گھروں میں آیا ان میں سے ایک بھائی پنڈی اور ایک گاؤں میں شروع ہی سے رہائش پذیر تھے۔ کیا ان کا چھوٹے بھائیوں سے مطالبہ حق ہے۔

 گاؤں کی زمین جو سب کی مشترکہ ہے اس کا فیصلہ تو ہو گیا ہے، اور وہ سب کو برابر ملی ہے لیکن ایک عرصے سے بڑے بھائی کے پاس ہے اور جب سے والدین کراچی آئے،تقریباًکچھ35سال سے اس وقت سے لے کر اب تک اس زمین کا غلہ، اناج وغیرہ صرف وہ ہی استعمال کرتے ہیں اور اس میں سے کسی بھائی کو بھی کچھ حصہ نہیں ملا اورنہ ہی ملتا ہے گاؤں کی زمین کو تقسیم ہوئے کچھ6سے 7سال ہو گئے ہیں ۔ کیا باقی بھائیوں کا اس غلہ ،اناج وغیرہ میں کوئی حق بنتا ہے، اگر بنتا ہے تو کتنا؟ طریقہ کار مرحمت فرمائیں

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نہ چھوٹے بھائیوں  کے ذمہ کرایہ لازم ہے ،نہ بڑوں کے ذمہ  کیونکہ  و الد کی مشترکہ جائداد میں  سب  بچےوالد  کی اجازت سے رہ رہے تھے ۔والد کے انتقال کے بعد  ابھی تک حصوں کا تعین نہیں ہوا ،بلکہ والد کی زندگی  میں جس طرح رہائش تھی  اسی طرح بعد میں بھی رہائش پذیر  ہیں، آپس میں کوئی نیا معاہدہ  نہیں ہوا اس لئے مشترکہ  جائداد سے  جس وارث نے جتنا منافع حاصل کیا  اور خرچ  کردیااس سے واپسی  کا  مطالبہ نہ ہوگا ۔ البتہ والد  کے انتقال کے بعد جب گاؤں والی جائداد تقسیم ہوچکی ہے  تو کراچی والی جائدا د  بھی شریعت کے مطابق جلد سے جلد  تقسیم کرلی جائے تاکہ جھگڑا ہی ختم ہوجائے ۔

حوالہ جات
تنقيح الفتاوى الحامدية (2/ 120) ونقل المؤلف عن الفتاوى الرحيمية سئل عن مال مشترك بين أيتام وأمهم استربحه الوصي للأيتام هل تستحق الأم ربح نصيبها أو لا أجاب لا تستحق الأم شيئا مما استربحه الوصي بوجه شرعي لغيرها كأحد الشريكين إذا استربح من مال مشترك لنفسه فقط ويكون ربح نصيبها كسبا خبيثا ومثله سبيله التصدق على الفقراء ا هـ ( أقول ) أيضا ويظهر من هذا ومما قبله حكم ما لو كان المباشر للعمل والسعي بعض الورثة بلا وصاية أو وكالة من الباقين . قال فی الغیاثیہ ؛ ولو تصرف احد االورثة فی الترکة المشترکة وربح فالربح للمتصرف وحدہ ﴿احسن الفتاویج/۹ ص/ ۲۸۲﴾
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب