021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بینک منیجر کی تنخواہ
55475اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

میرے سسر صاحب ایک بینک میں منیجر تھے،اب وہ ریٹائر ہوچکے ہیں ،ساری زندگی انہوں نے بینک کمائی سے گھر چلایا اور ایک گھر بھی بنوایا ،تیس سال تک اس گھر میں مقیم رہے ،اب وہ گھر فروخت کرکے پیسہ اپنے بیوی بچوںمیں تقسیم کرنا چاہتے ہیں ،میرے شوہر صاحب بھی اپنا حصہ لینا چاہتے ہیں ان کا کہنا کہ وہ سود حرام نہیں تھا بلکہ والد صاحب کے کام کی اجرت تھی ۔میں اپنے شوہر کو کس طرح قائل کروں کہ وہ پیسہ سارا بینک کا ہے جوکہ حرام ہے ،براہ مہر بانی رہنمائی فرمائیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مروج سودی بینکوں کی نوکری حرام ہے اس سے ملنے والی تنخواہ بھی حرام ہے، اس کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ تو کام کی اجرت ہے لہذا حلال ہے ،یہ بات درست نہیں ، کیونکہ کسی بھی عمل کی اجرت حلال ہونے کے لئے دو شرطیں ہیں ١۔ وہ عمل شرعا جائز ہو ۲۔ تنخواہ حلال پیسوں سے دیجائے ، جبکہ بینکوں میں اکثر کاروبار سودی لین دین کا ہوتاہےاور سودی کاروبار کرنے والوں پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کو ملعون قرار دیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سود کھانے والے کھلانے اور سودی معاملہ کو لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والے سب پر اللہ تعالی کی لعنت ہے ۔لہذا منیجر کوملنے والی تنخواہ حرام تھی اس حرام پیسوں سے بنایا ہو امکان کا استعمال خود اس کے اور اس کے ورثہ کے لئے جائز نہیں ، بلکہ واجب التصدق ہے،اس تفصیل کے بعد صورت مسئولہ میں آپ کے شوہر کو چاہئے کہ اس مال کو لینے سے اجتناب کرے۔تاہم اگر آپ کا شوہر مسکین یعنی اس کی ملک میں بقدر نصاب مال نہ ہواور والد اس مکان کی رقم کا کچھ حصہ اسےمالک بناکر دے دے تو بیٹے کے لے اس کے استعمال کی گنجائش ہوگی ۔
حوالہ جات
مشكاة المصابيح للتبريزي (2/ 134) عن جابر رضي الله عنه قال : لعن رسول الله صلى الله عليه و سلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال : " هم سواء " . رواه مسلم رد المحتار (26/ 453) ويردونها على أربابها إن عرفوهم ، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه ا هـ الهداية في شرح بداية المبتدي (2/ 420) وإن كان الملتقط فقيرا فلا بأس بأن ينتفع بها " لما فيه من تحقيق النظر من الجانبين ولهذا جاز الدفع إلى فقير غيره " وكذا إذا كان الفقير أباه أو ابنه أو زوجته وإن كان هو غنيا " لما ذكرنا والله أعلم.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / فیصل احمد صاحب