فردوس خان کے 3 بیٹے تھے،سب سے بڑادؤدخان،دوسراشیرین خان،سب سے چھوٹافیروزخان جوکہ بے اولادتھا،داؤدخان پہلے فوت ہوگئے،اس کے بعد ان کے چھوٹے بھائی فیروزخان فوت ہوگئے،شیرین خان کے زندہ ہونے کی وجہ سے فیروزخان کی ساری جائیداد شیرین خان نے لے لی،قانوناوکیل لوگ کہتے ہیں کہ اس میں داؤدخان کی اولاد کاتیسراحصہ ہے،جوکہ شیرین خان کے بیٹے نہیں مانتے،ایوب خان کے دورمیں انہوں نے یہ قانون بنایاتھاکہ اس میں سب کوحصہ ملے گا،اب سوال یہ ہے کہ فیروزخان کی جائیداد میں ان کے بڑے بھائی جوسب سے پہلے فوت ہوگئے تھے،ان کی اولاد کاحصہ ہے یانہیں؟
ازروئے شریعت بڑے بھائی داؤدخان کی اولاد کاچھوٹے بھائی فیروزخان کی میراث میں حصہ بنتاہے یانہیں ؟اگربنتاہے توکتنابنتاہے؟برائے مہربانی مفتیان کرام فتوی صادرفرمائیں،تاکہ بندے کوجائیداد کی تقسیم میں آسانی ہو۔
o
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
داؤدخان کی اولادکاچھوٹے بھائی فیروزخان کی میراث میں کوئی حصہ نہیں بنتا،کیونکہ جس وقت فیروزخان فوت ہوااس وقت اگرچہ اس کی کوئی اولادتو نہیں تھی،لیکن اس کابڑابھائی شیرین خان زندہ تھا،جواس کی مکمل میراث کاحق دارتھا،اس لئے بھائی کے ہوتے ہوئے بھتیجوں کامیراث میں حصہ نہیں ہوگا۔
حوالہ جات
"رد المحتار" 29 / 401:
ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده ( ويقدم الأقرب فالأقرب منهم ) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت ( كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت ) بأكثر ( عصبة وذا سهم ) كما مر ( ثم الجد الصحيح ) وهو أبو الأب ( وإن علا ) وأما أبو الأم ففاسد من ذوي الأرحام ( ثم جزء أبيه الأخ ) لأبوين ( ثم ) لأب ثم ( ابنه ) لأبوين ثم لأب ( وإن سفل ) تأخير الإخوة عن الجد وإن علا قول أبي حنيفة وهو المختار للفتوى خلافا لهما وللشافعي .
قيل وعليه الفتوى ( ثم جزء جده العم ) لأبوين ثم لأب ثم ابنه لأبوين ثم لأب ( وإن سفل ثم عم الأب ثم ابنه ثم عم الجد ثم ابنه ) كذلك وإن سفلا فأسبابها أربعة : بنوة ثم أبوة ثم أخوة ثم عمومة۔