021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
گاؤں میں جمعہ کاحکم
55627 نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

ہماراعلاقہ دوپہاڑوں کے درمیان واقع ہے اس علاقہ میں تین بڑے گاؤں ہیں جس کانام گاؤں سنگرہ ،گاؤں غوخدرہ ،گاؤں نری تنگی ہے، لیکن مجموعی طورپرپورے کے پورے علاقے کوسنگرہ کے نام سے یادکیاجاتاہے، پورے علاقے کی مجموعی آبادعی تقریبا3 ہزارلوگوں پرمشتمل ہے ،یومیہ ضروریات کی تمام چیزیں موجودہے جو15 20 جنرل اسٹورپرمشتمل ہے، البتہ پولیس چوکی اورمستقل ہسپتال نہیں ہے ،باقی چھوٹی ڈسپنسریاں موجودہیں ،یہاں کے لوگوں نے جمعہ پڑھنے کی استفتاء حاصل کی تواس شرط پرجمعہ پڑھانے کی اجازت مل گئی کہ تمام کے تمام لوگ پورے علاقے کی ایک بڑی مسجد میں نماز جمعہ اداء کریں گے ،کچھ عرصے تک ایک ہی مسجد میں نمازجمعہ پڑھنے کامعمول رہا،لیکن بعدمیں گاؤں سنگرہ کے لوگوں نے اپنے محلے کے امام( جوغیرعالم دین پیش امام تھے) سے جمعہ پڑھاناشروع کردیا،بعدمیں امام صاحب نے محلے کی لوگوں کی قبائلی اختلافات سے امامت ترک کردی ، 5 6 مہینے تک مسجد میں مستقل امام نہیں تھا،بعدمیں ایک عالم دین نے اس مسجد میں امامت اختیارکی، اب لوگ اس عالم دین کوجمعہ پڑھانے پرمجبورکررہے ہیں ،عالم دین نے ان کوسمجھایاکہ جس طرح مجموعی طورپرایک ہی مسجد میں نمازجمعہ پڑھنے کی اجازت مل گئی تھی اسی طرح کیاجائے ،لیکن لوگ بارباراپنامطالبہ کررہے ہیں ،واضح رہے کہ گاؤں سنگرہ کی آبادی تقریبا80 گھروں پرمشتمل ہے توابھی یہاں جمعہ پڑھاناصحیح ہوگایانہیں؟برائے کرم تفصیلی جواب دلائل کی روشنی میں واضح فرمائیں ،تاکہ فتنہ فسادکی تلافی ممکن ہو۔ o

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں تینوں گاؤں کواکٹھاکیاجائے یاالگ الگ ماناجائے دونوں صورتوں میں جمعہ جائزنہیں کیونکہ جمعہ جائزہونے کی شرائط نہیں پائی جاتیں ،الگ الگ توویسے بھی آبادی کم ہے ،اوراگراکٹھاکیاجائے توبھی شہر یاقریہ کبیرہ کی تعریف پھربھی صادق نہیں آتی مثلابازارہوجہاں تمام یااکثر ضروریات زندگی مل جاتی ہوںاس لئے مذکورہ جگہ جمعہ کی نماز کی گنجائش معلوم نہیں ہوتی ،بلکہ جمعہ کے دن بھی عام دنوں کی طرح اذان دے کر ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ اداء کریں ، البتہ جوجمعہ شروع ہوچکاہے اس کوختم کرنے کےلئے پہلے لوگوں کو ترغیب دیں اوراچھی طرح ذہن سازی کریں پھرجمعہ کوختم کریں ،تاکہ فتنہ وفساد نہ ہو۔
حوالہ جات
"رد المحتار" 6 / 44: لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة ؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر ۔ "الهداية" 1 / 829 : لا تصح الجمعة إلا في مصر جامع أو في مصلى المصر ولا تجوز في القرى لقوله عليه الصلاة و السلام [ لا جمعة ولا تشريق ولا فطر ولا أضحى إلا في مصر جامع ] والمصر الجامع : كل موضع له أمير وقاض ينفد الأحكام ويقيم الحدود وهذا عند أبي يوسف رحمه الله وعنه أنهم إذا اجمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم والأول اختيار الكيرخي وهو الظاهر والثاني : اختيار الثلجي والحكم غير مقصور على المصلى بل تجوز في جميع أفنية المصر لأنها بمنزله في حوائج أهله۔ "حاشية رد المحتار" 2 / 148: في التحفة عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث، وهذا هو الاصح إلا أن صاحب الهداية تر ك ذكر السكك والرساتيق، لان الغالب أن الامير والقاضي الذي شأنه القدرة على تنفيد الاحكام وإقامة الحدود لا يكون إلا في بلد كذلك اه. قوله: (له أمير وقاض) أي مقيمان فلا اعتبار بقاض يأتي أحيانا يسمى قاضي الناحية، ولم يذكر المفتي اكتفاء بذكر القاضي لان القضاء في الصدر الاول كان وظيفة المجتهدين، حتى لو لم يكن الوالي والقاضي مفتيا اشترط المفتي كما في الخلاصة۔ "الکوکب الدری "1/413 : ولیس ھذاکلہ تحدیدالہ بل اشارۃ الی تعیینہ وتقریب لہ الی الاذھان وحاصلہ ادارۃ الامر علی رأی اھل کل زمان فی عدھم المعمورۃ مصرافماھومصرفی عرفہم جازت الجمعۃ فیہ ومالیس بمصرلم یجز فیہ الاان یکون فناء المصر۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب