021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کھل خرید کرمشتری کا دوبارہ بائع کو دینا۔
56221خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

کیافرماتےہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ صورت مسئلہ یہ ہے کہ زید عمر سے کھل خریدتاہے ،عمرفیکٹری کامالک ہے پھرعمراس کھل کواپنے استعمال میں لاتاہے،اس کی اجازت سے اورکہتاہےکہ میں تین ماہ تک استعمال کرتاہوں ،تین ماہ کے بعد جوبھی کھل کاریٹ ہوگااس ریٹ کے تحت میں تجھے پیسے دے دوں گا۔ عمر کی فیکٹری میں مال ہوتاہے مثلاسوٹن کھل،اب مالک کہتاہے کہ اس میں تمہاری لاکھ کی کھل ہوگی ،پھروہ اس کواپنے استعمال میں لاتاہے اورتین ماہ بعد پیسے دے دیتاہے ،ریٹ جوبھی ہو،اب آیاکہ یہ صورت جائزہے یانہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

موجودہ معاملہ بہرحال ناجائزہے،اگرمشتری نےمبیع پرقبضہ نہیں کیااورمبیع بائع ہی کے پاس تھی اوراسی کودوبارہ بیچ دی تودووجہ سے ناجائزہے ایک تو یہ بیع قبل القبض ہےاوردوسری وجہ یہ کہ تین ماہ بعد کی قیمت مجہول ہے۔ اوراگرمشتری نے پہلے قبضہ کیاپھربائع کودوبارہ بیچی تواگرپہلی بیع میں یہ شرط لگائی ہو کہ مبیع تین مہینے تک بائع کے پاس رہے گی اوروہ استعمال کرے گااورقیمت کی ادائیگی تین ماہ بعد جوبھی ریٹ ہواس کے حساب سے ہوگی توبھی دووجہ سے ناجائزہے،ایک وجہ تویہ ہے کہ یہ شرط مقتضائے عقد کے خلاف ہے اوراس میں بائع کافائدہ ہے ،اوردوسری وجہ یہ کہ قیمت مجہول ہے۔ اوراگربیع کے وقت یہ شرط نہیں لگائی توپہلی بیع توصحیح ہوگی،لیکن دوسری بیع جائزنہیں ہوگی،کیونکہ مستقبل کی قیمت پربیع ہوئی جوکہ مجہول ہے۔ اس کی جائزصورت یہ ہوسکتی ہے کہ مشتری پہلے قبضہ کرے،پھراگربائع کوضرورت ہوتوایک متعین اورطے شدہ قیمت پراس کوفروخت کرے،لیکن ان ددنوں معاملات کاآپس میں کوئی تعلق بھی نہیں ہوناچاہئے،کہ ایک معاملے میں دوسرے کومشروط کیاجائےیااس کاوعدہ کیاجائے۔
حوالہ جات
"مجمع الانہر" 3/90 : ولوکان البیع بشرط لایقیضیہ العقد ،وفیہ نفع لأحدالمتعاقدین ،ای البائ والمشتری أولمبیع یستحق النفع بأن یکون آدمیا،فہو أی ھذالبیع فاسد۔ "خلاصۃ الفتاوی" 3/50 : ولوکان فی الشرط منفعۃ لأحدالمتعاقدین،بان شرط البائع أن یقرض المشتری أو علی القلب یفسدالعقد۔ "الجوهرة النيرة" 2 / 289: ( ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه )قال الخجندی اذاشتری منقولالایجوز بیعہ قبل القبض لامن بائعہ ولامن غیرہ فان باعہ فالبیع الثانی باطل والبیع الاول علی حالہ جائزولوباعہ من البائع فقبلہ لایصح البع ۔ "الھندیۃ" 3/13 : فنقول من حکم المبیع اذاکان منقولاان لایجوز بیعہ قبل القبض الی ان قال وامااذاتصرف فیہ مع بائعہ فان باعہ منہ لم یجز بیعہ اصلاقبل القبض ۔ " رد المحتارعلی الدرالمختار" 20 / 405: ( وما لا تصح ) إضافته ( إلى المستقبل ) عشرة ( البيع ، وإجازته ، وفسخه ، والقسمة والشركة والهبة والنكاح والرجعة والصلح عن مال والإبراء عن الدين ) لأنها تمليكات للحال فلا تضاف للاستقبال كما لا تعلق بالشرط لما فيه من القمار ۔ "درر الحكام شرح غرر الأحكام" 6 / 407: ( قوله : البيع ) صورة البيع بشرط كقوله بعته بشرط استخدامه شهرا وتعليقه بالشرط كقوله بعته إن كان زيد حاضرا وفي إطلاق البطلان على البيع بشرط تسامح ؛ لأنه من قبيل الفاسد لا الباطل وإليه يشير قول ، وقد مر في البيع الفاسد ( قوله ، وقد مر بيانه في البيع الفاسد ) لكنه لم يفصل فيه بين ما إذا كان الشرط بكلمة إن أو بكلمة على ، وقد فصله العمادي والزيلعي فقال لا يجوز تعليق البيع بالشرط مطلقا إن كان الشرط بكلمة إن بأن قال : بعت منك إن كان كذا ويبطل البيع به سواء كان الشرط نافعا أو ضارا زاد العمادي أو كيفما كان ا هـ إلا في صورة واحدة وهي أن يقول بعت منك إن رضي فلان فإنه يجوز إذا وقعت ثلاثة أيام ؛ لأنه اشتراط الخيار للأجنبي وهو جائز كذا أطلق الجواز الزيلعي ونسبه العمادي بقوله قال أبو الفضل يجوز إذا وقت . إلخ ، وإن كان الشرط بكلمة على ، فإن كان الشرط مما يقتضيه العقد أو يلائمه أو فيه أثر أو جرى التعامل به كما إذا شرط تسليم المبيع أو الثمن أو التأجيل أو الخيار لا يفسد البيع ويجوز الشرط ، وإن كان الشرط لا يقتضيه العقد ولا يلائمه ولم تجر العادة به ، فإن كان في الشرط منفعة لأهل الاستحقاق فسد البيع وإلا فلا ۔ " رد المحتارعلی الدرالمختار " 18 / 413: وقيد بالقبض ؛ لأن العقد في ذاته صحيح ، غير أنه لا يجب على المشتري دفع الثمن لعدم القبض ۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

فیصل احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب