021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شرعی شہادت کے بغیر قتل ثابت نہیں ہوسکتا
55914 دعوی گواہی کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے کرام بابت اس مسئلہ کے مسمی غلام حید ر ولد محمد مسکین سکنہ کھن بالی منگ تحصیل وضلع مانسہرہ ہوں ،عرض یہ ہے کہ میرے والد صاحب محمد مسکین گاؤں کھن بالی منگ کے رہائشی تھے ،اوراسی گاؤں میں امام مسجد تھے ،اس دوران نورالدین نامی میرے والدصاحب کے پاس تین دن تک آتارہا،اورتیسرے دن اس آدمی نے تین دفعہ میرے والدصاحب کوآنے کاکہا،اورہربار میرے والدصاحب سے اصرارکرتارہا،کہ میراتعمیراتی کام کرناہے ،اورآخری دفعہ مسمی نورالدین میرے والدصاحب کواپنے ساتھ لے کراپنے زلزلہ میں گرے مکان کی چاردیواری کے اندرلے گیا،اس مکان کی چاردیواری کے اندرنورالدین اس کے دوبھائی اوران کاوالد موجودتھا،ان کے علاوہ دیگرکوئی اورآدمی وہاں موجودنہ تھا،اورتقریبادوگھنٹہ کے بعد وہی لوگ میرے والد صاحب کی لاش لے کر ہمارے گھرآئے اورکہاکہ مسکین گرکرزخمی ہواہے اورفوت ہواہے ،متوفی محمد مسکین کے گھراورنورالدین کے گھرکافاصلہ تقریبا480 فٹ ہے ،اورجب ہم نے لاش کودیکھاتولاش کے ماتھے پرزخم کانشان تھا،اورماتھے کی ہڈی اند رکی طرف چپکی ہوئی تھی ،اورایسامعلوم ہورہاتھا،کہ متوفی کوکسی چیز ،بیل یادیگر کسی چیز سے مارا ہواتھا،اورلاش لانے کے بعد تقریبا ایک گھنٹہ بعد ہم جائے وقوعہ پرگئے تھے ،لیکن وہاں پرکوئی نشان موجودنہیں تھا،اورنہ ہی خون پڑاتھا،چندسال بعد نورالدین کی بھائی کی بیوی سے ہماراگھاس کی وجہ سے تنازعہ ہوگیاتھا،جس پرنورالدین کی بھابھی نے ہمیں طعنہ دیاکہ متوفی مسکین کے دانت اورخون کہاں پرہیں ،اس پرتم لوگوں نے کیاکرلیاتھا؟اوراب بھی کچھ نہیں کرسکتے ہو ،اس بات کومیں، ایک بھائی اورگاؤں کے ایک آدمی نے سنا،جوکہ گواہ ہیں ،اوران کے علاوہ دوعورتیں اوربھی گواہ ہیں ۔ دریافت طلب عمل :قتل نورالدین پر آتاہے یانہیں ؟لہذافتوی جاری فرمایاجائے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قتل کے ثبوت کے لئے شرعی شہادت ہوناضروری ہے اوروہ یاتودوعینی شاہدین ہوں جنہوں نے قتل کرتے ہوئے دیکھاہویاایسے حالات وواقعات ہوں ،جویقین کے درجے تک قتل ثابت کریں ،جن کے ہوتے ہوئے کسی قسم کاشبہہ باقی نہ رہے ۔صورت مسئولہ میں نہ عینی شاہدین ہیں اورنہ قرینہ ایساہے جس کے ذریعہ قتل کوثابت کیاجاسکے ۔ آپ نے جولکھاہے کہ نورالدین والد کوبلاکر لے گیاتھا،اوراس کے بعد وہ والد کی لاش لے کرآئے ،اوراس کے بعد نورالدین کی بھابھی نے کہاکہ آپ پہلے بھی کچھ نہ کرسکے تھے ،اب کیاکرسکتے ہو،اوراس پرگواہ بھی موجودہیں،تویہ سب شواہد اس اعتبارسے توفائدہ مند ہیں کہ آپ ان کے خلاف قتل کامقدمہ کریں ،اورگواہوں کوعدالت کے سامنے پیش کریں جس کے ذریعہ وہ آپ کے والد کے قاتل کاپتہ لگانے کے سلسلے میں تفتیش میں پیش رفت کرسکے ،لیکن شرعی طورپر قتل کے ثبوت کے لئے یہ چیزیں ناکافی ہیں،اس لئے محض ا ن امور کی بنیاد پر آپ کے لئے ان کوقاتل سمجھنایااپنے طورپران کے خلاف کوئی اقدام کرنا جائزنہیں ۔
حوالہ جات
"العناية شرح الهداية" 10 / 380: ( ومنها الشهادة ببقية الحدود والقصاص تقبل فيها شهادة رجلين ) لقوله تعالى { واستشهدوا شهيدين من رجالكم } ( ولا تقبل فيها شهادة النساء ) لما ذكرنا . الشرح:( ومنها الشهادة ببقية الحدود ) كحد الشرب والسرقة وحد القذف ( والقصاص تقبل فيها شهادة رجلين لقوله تعالى { واستشهدوا شهيدين من رجالكم } ) فإنه بعمومه يتناول المطلوب وغيره لما مر من عموم اللفظ ، وهو نص في بيان العدد والذكورة والبلوغ۔ "درر الحكام في شرح مجلة الأحكام "12 / 338: القرينة القاطعة هي الأمارة البالغة حد اليقين مثلا إذا خرج أحد من دار خالية خائفا مدهوشا وفي يده سكين ملوثة بالدم فدخل في الدار ورئي فيها شخص مذبوح في ذلك الوقت فلا يشتبه في كونه قاتل ذلك الشخص ولا يلتفت إلى الاحتمالات الوهمية الصرفة كأن يكون ذلك الشخص المذكور ربما قتل نفسه۔ راجع المادة 74 ( القرينة القاطعة هي الأمارة البالغة حد اليقين ) وبتعبير آخر هي القرينة الواضحة بحيث يصبح الأمر في حيز المقطوع به ( رد المحتار ) والعمل بالقرينة القاطعة يجري في أبواب الفقه المختلفة وأمثلة ذلك على الوجه الآتي : 1 - مثال من العقوبات لو رئي شخص حاملا خنجرا ملوثا بالدماء وخارجا من دار خالية وهو في حالة اضطراب ودخل إلى الدار فورا فوجد رجل مذبوح فلا يشتبه أن ذلك الشخص هو القاتل لذلك المذبوح فإذا ثبت حال ذلك الشخص كما أشرنا بالشهود العدول فيحكم القاضي عليه بأنه قاتل عمدا ولا يلتفت إلا على الاحتمالات الوهمية كأن يظن أن المذبوح قد ذبح نفسه أو أنه ذبحه شخص آخر وهدم الحائط وكان ذلك الشخص مختفيا وراء الحائط إلى غير ذلك من الاحتمالات الوهمية۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب