021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فرض سے فارغ ہوتے ہی بیان کا حکم
55922نماز کا بیاننماز کی سنتیں،آداب اورپڑھنے کا طریقہ

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس بارے میں کہ ہماری مسجد ﴿ جو شہر میں مکتبہ دیو بند کی مرکزی مسجد ہے ﴾ میں امام صاحب جو عالم بھی ہیں عشاء کے فرائض پڑھانے کے فورا بعد ہی اسپیکر میں بیان شروع کردیتے ہیں جس کا دورانیہ دس سے بارہ منٹ کا ہوتا ہے ،بیشک ان کا بیان اصلاحی ہوتا ہے اور اکثر وبیشتر لوگ بیٹھکر سنتے بھی ہیں لیکن مئلہ یہ ہے کہ جن نمازیوں کی جورکعتیں بقایا رہ جاتی ہیں ان کا ادا کرنا مشکل ہوجاتا ہے،اگرکوئی نمازی فرائض کے بعدبیان نہیں سننا چاہتا ہے وہ اپنی بقایا نماز ادا کرنا شروع کردیتاہے تو اس کی نماز بھی خراب ہوجاتی ہے۔باقی نمازیوں کے بارے میں تو یقین سے نہیں کہا جاسکتا لیکن میری نماز میں ضرور خلل پڑتا ہے کیونکہ سارادھیان بیان کی طرف چلا جاتا ہے۔بعض اوقات تو اتنا خلل پڑتاہے کہ جو پڑھ رہا ہوتا ہوں اسے باربار دہرانا پڑتاہے۔فرائض کے فورا بعد بیان نہ تو فرض ہے نہ سنت موکدہ ہے نہ سنت غیر موکدہ ہے نہ نفل اور نہ ہی مستحب ہے کہ تمام نمازیوں پر لازم ہے کہ وہ ضرور اس بیان کو سنیں۔میں نے تو علماء سے یہی سنا ہے کہ جس نماز کے بعد سنتیں موکدہ ہوں ان سنتوں کو فورا ادا کرنے کاحکم ہے۔اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ بدعت نہیں؟ بریلوی حضرات نماز کے فورا بعد بلند آوازمیں جو کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں ان کے بارے میں تو ہم کہتےہیں کہ وہ بدعت کرتے ہیں اگریہی عمل مکتبہ بریلوی والے کریں تو بدعت اور ہم کریں تو جائزہے،یہ کیسے ممکن ہے؟حالانکہ کلمہ طیبہ پڑھنا بیان کرنے سے زیادہ افضل عمل ہےاور اس کا دورانیہ بھی ایک دومنٹ کا ہوتا ہے جبکہ بیان کا دورانیہ دس سے بارہ منٹ تک ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ اعلان کردیا جائے کہ نمازکے دس منٹ کے بعداصلاحی بیان ہوگا جو سننا چاہتا ہے بیٹھ جائے گا اور جو نہ سننا چاہے وہ چلا جائے گا؟برائے مہربانی اس بارےمیں رہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر کوئی عالم امام مسجد اپنی مسجد کی حد تک عوام کی اصلاح کوشش کرتا ہے،دین کی تبلیغ کرتاہے تو محلہ والوں کو چاہئے کہ ان کے ساتھ تعاون کریں ان کی باتیں غور سے سنیں ، عمل کریں ، دین کی اشاعت میں حصہ لیں ،اس میں رکاوٹ نہ ڈالیں ۔ البتہ امام صاحب کو مسجد میں بیان کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ مسبوقین اور سنن اور نفل پڑھنے والوں کی نماز میں خلل نہ آے ،کیونکہ کسی کی نماز میں خلل کا باعث بننا شرعا صحیح نہیں ،نیز جن فرائض کے بعد سنتیں ہیں ان میں فرض اور سنتوں کے درمیان ہمیشہ طویل وقفہ کرنا بھی مکروہ ہے،بلکہ فرض سے فارغ ہوکر مختصر اوراد پڑھیں اس کے بعدسنتیں اداکریں ،سنتوں سے فارغ ہوکر حسب فرصت اوراد وظائف کا معمول پورا کریں،کبھی کبھا رکسی ضرورت سےسنت وفرض میں طویل وقفہ ہوجائے اس کی بھی گنجائش ہے ۔ لہذاآپس کے مشورے سے کوئی ایسا وقت یا جگہ کا انتخاب کرلیا جائے جو سب کے لئے مناسب اور موزوں ہواور نمازیوں کی نماز میں خلل کا باعث بھی نہ ہو، اس کا بہتر وقت فجر اور عصر کے بعد کا ہے ۔
حوالہ جات
رد المحتار (4/ 144) ويكره تأخير السنة إلا بقدر اللهم أنت السلام إلخ .قال الحلواني : لا بأس بالفصل بالأوراد واختاره الكمال . قال الحلبي : إن أريد بالكراهة التنزيهية ارتفع الخلاف قلت : وفي حفظي حمله على القليلة ؛ ويستحب أن يستغفر ثلاثا ويقرأ آية الكرسي والمعوذات ويسبح ويحمد ويكبر ثلاثا وثلاثين ؛ ويهلل تمام المائة ويدعو ويختم بسبحان ربك .الی قولہ ( قوله إلا بقدر اللهم إلخ ) لما رواه مسلم والترمذي عن عائشة قالت { كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يقعد إلا بمقدار ما يقول : اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام } وأما ما ورد من الأحاديث في الأذكار عقيب الصلاة فلا دلالة فيه على الإتيان بها قبل السنة ، بل يحمل على الإتيان بها بعدها ؛ لأن السنة من لواحق الفريضة وتوابعها ومكملاتها فلم تكن أجنبية عنها ، فما يفعل بعدها يطلق عليه أنه عقيب الفريضة . ( قوله قال الحلبي إلخ ) هو عين ما قاله الكمال في كلام الحلواني من عدم المعارضة ط ( قوله ارتفع الخلاف ) لأنه إذا كانت الزيادة مكروهة تنزيها كانت خلاف الأولى الذي هو معنى لا بأس ( قوله وفي حفظي إلخ ) توفيق آخر بين القولين ، المذكورين ، وذلك بأن المراد في قول الحلواني لا بأس بالفصل بالأوراد : أي القليلة التي بمقدار " اللهم أنت السلام إلخ " لما علمت من أنه ليس المراد خصوص ذلك ، بل هو أو ما قاربه في المقدار بلا زيادة كثيرة فتأمل . وعليه فالكراهة على الزيادة تنزيهية لما علمت من عدم دليل التحريمية فافهم وسيأتي في باب الوتر والنوافل ما لو تكلم بين السنة والفرض أو أكل أو شرب ، وأنه لا يسن عندنا الفصل بين سنة الفجر وفرضه بالضجعة التي يفعلها الشافعية ۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب