021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کورٹ میں ایک ساتھ تین طلاقیں دینے کا حکم
56073 طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

ایک شخص نے اپنی بیوی کو کورٹ میں تین طلاق دے دیں۔ اس کے بعد وہ کہیں سے فتوی لے آیا کہ تین طلاق نہیں ہوئی میں آپ کو کوٹ کا طلاق نامہ بھیجتا ہوں، آپ اس کو پڑھ کر جواب دیں کہ تین طلاق ہوگئیں یا نہیں؟ اس کا فتوی بھی بھیجتا ہوں اس کا جواب بھی دے دیں۔ o

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زبان سے یا لکھ کر بیک وقت یا متفرق طور پر اگر تین طلاق دی جائیں تو اس سے تین طلاقیں ہی واقع ہوتی ہیں۔یہ مذہب جمہور صحابہ،محدثین،فقہاء،چاروں ائمہ حضرات ،علمائے عرب وعجم اور جمہور امت کا شروع دن سے چلتا آرہا ہے۔سعودی عرب کے علماء نے بھی حکومت کی نگرانی میں اس مسئلے پر متفقہ فیصلہ اور فتوی جاری کیا ہےکہ اگر ایک لفظ کے ساتھ تین طلاقیں دی جائیں تو وہ تین ہی شمار ہوں گی(اس کا عکس "احسن الفتاوی" جلد 5 میں موجود ہے)۔اس لیے ساری امت کے جدید اور قدیم فقہاء کے مقابلےمیں چند لوگوں کے اس قول کا کوئی اعتبار نہیں کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دینے سےتین نہیں بلکہ ایک واقع ہوتی ہے۔(1،2) اس تمہید کی روشنی میں عثمان کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،اب ان دونوں کا میاں بیوی کے طور پر ایک ساتھ رہنا جائز نہیں۔ صرف حلال شرعیہ جس کی صورت یہ ہےکہ عدت گزارنے کے بعدبیوی کسی دوسری جگہ شادی کرلے، دوسرے شوہر سے ازدواجی تعلقات قائم کرےاور اس کے بعد وہ شوہر مر جائے یا اتفاقاً کسی وجہ سے طلاق دے تو اس کی عدت گزارنے کے بعد عثمان اپنی بیوی سے دوبارہ نکاح کرسکتاہے،ورنہ نہیں۔ سوال کے ساتھ لف فتوی کے بارے میں ایک بات تو اوپر ذکر کر دی کہ جمہور امت کے خلاف اس کی کوئی حیثیت نہیں اور اگر اس مسئلے کی تفصیل مطلوب ہے تو اس کے لیے حضرت مولانا سرفراز خان صفدر نور اللہ مرقدہ کی کتاب "عمدۃ الاثاث فی حکم الطلقات الثلاث" کا مطالعہ فرمالیں۔باقی ان دلائل کا مختصر جواب ذیل میں ملاحظہ ہو: 1۔ فتوی میں ذکر کی گئی آیت میں بالکل یہ بات ذکر ہےکہ اگر دو طلاقیں دی ہوں تو اس کے بعد شوہر کو رجوع کا حق ہوتاہے،تاہم اس سے اگلی آیت میں ہے: " فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ " کہ اگر تیسری طلاق دی تو بغیر حلالہ کے نکاح نہیں ہوسکتا،اس آیت میں یہ تفصیل نہیں کہ دو کے بعدمتصل اور فوری طور پرتیسری طلاق دے یا بعد میں کسی طہر میں دے،لہذاآیت کو عموم پر رکھاجائے گا کیونکہ خصوص کا کوئی قرینہ موجود نہیں۔ 2۔ پہلی حدیث کا جواب یہ ہےکہ اس واقعے میں کہیں ذکر نہیں کہ اس صورت میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک شمار کر کےآپ ﷺنے رجوع کا حکم فرمایاہو،لہذا اس کو دلیل میں پیش کرنا درست نہیں۔باقی انتہائی مجبوری کی صورت میں اگرچہ طلاق کی اجازت توہے لیکن ایک ساتھ تین طلاقیں دینا غیر مستحسن اورانتہائی ناپسندیدہ عمل ہے،جس پر آپﷺ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ غصہ اور ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ 3۔ دوسری حدیث کا ایک جواب یہ ہےکہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ مختلف الفاظ کے ساتھ احادیث میں نقل کیا گیاہےاور ان کے اپنے پوتے سے جو روایت نقل کی گئی،اس میں الفاظ یہ ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو "طلاق بتہ" دی تھی اورظاہر ہے گھر کا آدمی گھر کی بات کو دوسروں سے زیادہ واقف ہوتاہےاورجمہور کے ہاں"طلاق بتہ " میں اگرایک طلاق کی نیت ہو توایک ہی واقع ہوتی ہے۔اسی لیے آپﷺنے ان سے قسم بھی لی تھی کہ کیا تمہاری نیت ایک طلاق کی تھی؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں!ایک کی تھی تو اس پر آپ ﷺنے ان کو رجوع کا حکم فرمایا۔امام ابو داؤد نے اسی روایت کو ترجیح دی ہے۔(
حوالہ جات
3) قال في الشاميه: "(قوله ثلاثة متفرقة) وكذا بكلمة واحدة بالأولى، وعن الإمامية: لا يقع بلفظ الثلاث ولا في حالة الحيض لأنه بدعة محرمة..... وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث." (ج:3,ص:233, دار الفكر-بيروت) وفي شرح النووي على مسلم: "وقد اختلف العلماء فيمن قال لامرأته أنت طالق ثلاثا فقال الشافعي ومالك وأبو حنيفة وأحمد وجماهير العلماء من السلف والخلف يقع الثلاث وقال طاوس وبعض أهل الظاهر لا يقع بذلك الا واحدة...." (ج:10,ص:70, دار إحياء التراث العربي - بيروت) وفي سنن أبي داود للسجستاني: "حدثنا سليمان بن داود العتكى حدثنا جرير بن حازم عن الزبير بن سعيد عن عبد الله بن على بن يزيد بن ركانة عن أبيه عن جده أنه طلق امرأته البتة فأتى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فقال « ما أردت ». قال واحدة. قال « آلله ». قال آلله. قال « هو على ما أردت ». قال أبو داود وهذا أصح من حديث ابن جريج أن ركانة طلق امرأته ثلاثا لأنهم أهل بيته وهم أعلم به وحديث ابن جريج رواه عن بعض بنى أبى رافع عن عكرمة عن ابن عباس." (ج:2,ص:231, دار الكتاب العربي ـ بيروت)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سمیع اللہ داؤد عباسی صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب