021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دین میں زیادتی جائزہے یانہیں؟
56087گروی رکھنے کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

زیدنے عمر سے گاڑی خریدی ،اورگاڑی کے کاغذات اس کے پاس بطوررہن کے رکھ دئے ۔ عقدرہن تام ہونے کے بعد عمرنے زید سے کہاکہ اس کے پاس ایک اورگاڑی بھی ہے ،جس کووہ زید پربیچ دے گا،اوراس کےعوض وہ نیارہن نہیں رکھے گا،بلکہ اس پرانے رہن کوہی اس کارہن بنائے گا،جبکہ وہ کاغذات توصرف پہلی والی گاڑی کے لئے تھے ،امام ابوحنیفہ اورامام محمد کے ہاں جائزنہیں ہے، جبکہ امام ابویوسف اس کوجائزقراردیتے ہیں ،براہ کرم راہنمائی فرمائیں کہ فتوی کس کے قول پرہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں مفتی بہ قول طرفین رحمہما اللہ تعالی کاہے،لیکن آج کل لوگوں کی آسانی کے لئے امام ابویوسف رحمہ اللہ کے قول پر بھی عمل کیاجاسکتاہے،اس لئے موجودوہ صورت میں ایک گاڑی کے کاغذات دوسری گاڑی کے بدلے میں بطور رہن رکھے جاسکتے ہیں۔
حوالہ جات
"المجة" /136 : المادة﴿ 714 ﴾اذارھن مال فی مقابلة دین تصح زیادة الدین فی مقابلة ذالک الرھن ایضا،مثلالورھن احد فی مقابلة الف قرش ساعة ثمنھاالفان ثم اخذ ایضافی مقابلة ذالک الرھن من الدین خمسمائة یکون قدرھن الساعة فی مقابلة الف وخمسمائة ۔ "شرح المجلة لمحمد خالد الاتاسی" 3/152 : فلوھلکت الساعة ھلکت بالف وخمسمائة لابالالف الالی فقط،ولوقضی الراھن الالف الاولی فلیس لہ استرداد الرھن من المرتھن مالم یدفع الباقی ،وھذاقول ابی یوسف ،وعندھماالزیادة علی الدین الاول علی ان یکون الرھن الاول رھنابالدین لاتجوز،بمعنی ان الرھن لایکون رھنابالزیادة فلایکون مضمونابھا،فلوھلک یھلک بالاصل وتبقی الزیادة ،ولوقضی الراھن الاصل کان لہ استرداد الرھن لکونہ محبوسابہ فقط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولاٴبی یوسف رحمہ اللہ تعالی ان الدین فی باب الرھن کالثمن فی البیع ،والرھن کالمثمن ،یعنی المبیع فتجوز الزیادة فیھماکمافی البیع ،وللامامین رحمھمااللہ تعالی ان الزیادة فی الدین توجب الشیوع فی الرھن فیکون بعض الرھن مضمونابالزیادة وبعضہ مضمونابالدین الاول ،وذلک البعض مشاع،فلایجوزبخلاف الزیادة فی الرھن ،لانھاتوجب تحول بعض الدین الی الرھن الثانی فصارالشیوع فی الدین لافی الرھن ،وذلک غیرمانع من صحہ الرھن۔﴿زیلعی ملخصا﴾ وکاٴن المجلة اختارت قول ابی یوسف مع ان المتون علی قولھماتصحیحالماقصدہ کل من الراھن والمرتھن واتفقاعلیہ من جعل الرھن مرھونابکلا الدینین تسھیلاعلی الناس۔ "ردالمحتار علی الدرالمختار" 6/524 : والزیادة فی الرھن تصح ،وتعتبر قیمتھایوم القبض ،ایضا،﴿وفی الدین لا﴾تصح خلافاللثانی ،والاصل ان الالتحاق باصل العقد انما یتصور اذاکانت الزیادة فی معقودبہ او علیہ ،والزیادة فی الدین لیست منھما ۔ قولہ ﴿والزیادة فی الرھن تصح﴾ مثل ان یرھن ثوبا بعشرة یساوی عشرة ثم یزید الراھن ثوبااآخرلیکون مع الاصل رھنابعشرة عنایة ۔ وقولہ فی الدین لاتصح﴾ المراد ان لایکون الرھن بھامضمونا،فاماالزیادة فی نفسھما فجائزة ۔ وصورة المسئلة ان یرھن عندہ عبدایساوی الفین بالف ثم استقرض منہ الفاآخر ی علی ان یکون العبد رھنابھماجمیعا،فلوھلک یھلک بالالف الاولی لابالالفین،ولوقضاہ الفاوقال انما قضیتھاعن الاولی لہ ان یسترد العبد،اتقانی ،﴿قولہ فی معقودبہ ﴾کالثمن اوعلیہ کالمبیع ط ﴿قولہ والزیادة فی الدین لیست منھما﴾بل اصل الدین لیس منھما،قال فی العنایة اماانہ غیر معقود علیہ فظاھر،واما انہ لیس بمعقودبہ فلوجوبہ بسببہ قبل عقد الرھن ،بخلاف الرھن فانہ معقود علیہ لانہ لم یکن محبوساقبل عقدالرھن ولایبقی بعدہ ۔ ﴿تتمہ ﴾قال فی الذخیرة وفی العیون عن محمد رھن غلامین بالف ثم قال للمرتھن احتجت الی احدھمافردہ علی ففعل فان الباقی رھن بنصف الالف ،فلوھلک یھلک من الدین نصفہ ولکن لایفتکہ الابجمیع الالف ۔ " فتح القدیر" 10 / 215،216 : وتجوزالزیادة فی الرھن ولاتجوزفی الدین ۔اقول معناہ لایکون الرھن رھنابالزیادة لاان نفس زیادة الدین علی الدین غیرصحیحة ،لان الاستدانة بعدالاستدانة قبل قضاء الدین الاول جائزاجماعا۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب