021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تقسیم سے پہلے مال میراث میں تصرف کا حکم
56120.2 میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

2۔ زید کے ذاتی گھر کا کرایہ ،اسلم بغیر تقسیم میراث کے لیتا رہا اور اپنی بہن کے ساتھ تحائف کا لین دین بھی کرتا رہا، شرعا اس کرایہ اور ان تحائف کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مال میراث میں تما م ورثاء بحیثیت مالک شریک ہوتے ہیں اور اس مال سے حاصل ہونے والے فوائد میں بھی اپنے اپنےحصہ کے بقدر سب شریک ہوتے ہیں،کسی ایک شریک کا سارامال یا اس سے حاصل ہونے والا نفع باقیوں کی اجازت کے بغیر لینا جائز نہیں ہوتا۔ موجودہ صورت میں چونکہ سارا کرایہ اسلم نے لیا ہے،لہذا باقی ورثاء (جو زید کے ترکہ میں اسلم کے ساتھ شریک ہیں)کے حصہ کے بقدر پیسے اسلم کے ذمہ قرض ہیں۔ لیکن چونکہ اسلم فوت ہو چکا ہے،لہذااب ادائیگی کی صورت یہ ہے کہ اسلم کے ورثاءحساب لگا ئیں کہ اسلم نے کرایہ کی مد میں کل کتنے پیسے حاصل کیے تھے ،پھر اس میں جو اس کا اپناحصہ بنتا ہے وہ نکال کر باقی پیسے جن ورثاءکے بنتے ہیں ان کو ان کے حصوں(جس کے تفصیل گزر چکی)کےبقدرادا کریں۔یہ پیسے ادا کرنے کے بعد جو مال بچے پھر وہ اسلم کے ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا،کیونکہ یہ پیسے ادا کرنا اسلم پر قرض تھا او رمال میراث میں سے پہلے قرض ادا کیا جاتاہے ،پھر کوئی مال بچ جائے تو وہ ورثاء کو ملتا ہے۔تاہم اس صورت میں یہ بھی ممکن ہےکہ زید کے مال میں جو ورثاء اسلم کے ساتھ شریک تھے وہ سب اس کو معاف کر دیں،اس صورت میں یقینا وہ ماجور ہوں گے۔

حوالہ جات
قال في كنز الدقائق : "يبدأ من تركة الميّت بتجهيزه ثمّ ديونه ثمّ وصيّته ثمّ تقسم بين ورثته،وهم:ذو فرضٍ أي ذو سهمٍ مقدّرٍ..." (ص:696, المكتبة الشاملة) وفي المحيط البرهاني : "وذكر محمد في شروط «الأصل» في الدار إذا كانت مشتركة، وأحد الشريكين غائب، فأراد الحاضر أن يسكنها إنسان، أو يؤاجرها إنساناً، قال: فيما بينه وبين الله تعالى فلا ينبغي له ذلك؛ لأنه يتصرف في نصيبه ونصيب شريكه، والتصرف في ملك الغير حرام حقاً لله تعالى، وحقاً لصاحب الملك، وفي القضاء لا يمنع من ذلك؛ لأن الإنسان لا يمنع عن التصرف فيما بيده إذا لم ينازعه أحد، فإن أجر وأخذ الأجر ينظر إلى حصة نصيب شريكه من الأجر، ويرد ذلك عليه إن قدر، وإلا يتصدق؛ لأنه تمكن فيه خبث لحق شريكه، وكان كالغاصب إذا أجر، وقبض الأجر يتصدق أو يرده على المغصوب منه، أما ما يخص نصيبه يطيب له؛ لأنه لا خبث فيه، هذا إذا أسكن غيره. فأما إذا سكن بنفسه وشريكه غائب، والقياس أن لا يكون له ذلك فيما بينه وبين الله كما لو أسكن غيره، وفي الاستحسان: له ذلك؛ لأن له أن يسكن الدار من غير إذن صاحبه حال حضرة صاحبه؛ لأنه يتعذر الاستئذان في كل مرة، وعلى هذا أمر الدور فيما بين الناس، فكان له أن يسكن حال غيبته، فأما ليس له إسكان غيره حال حضرة صاحبه بغير إذنه فكذا حال غيبته، وإلى هذا المعنى أشار محمد رحمه الله في «الكتاب»، فقال: هكذا عامة الدور." (ج:10,ص:217, المکتبۃ الشاملۃ)

سمیع اللہ عباسی

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

23/01/1438

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سمیع اللہ داؤد عباسی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے