021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مناسخہ کی ایک صورت کا حکم
56120.1 میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

ایک شخص برہان علی فوت ہوا۔ اس کے ورثاء میں بیوی اور تین بیٹے تھے۔ابھی وراثت تقسیم نہیں ہوئی تھی کہ برہان علی کا ایک بیٹا ؛زید فوت ہوگیا۔زید کے ورثاء میں اس کی بیوی ،ماں،ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھے۔اس کے بعد بھی وراثت تقسیم نہیں کی گئی اور مال مشترک رہاکہ زید کابیٹا اسلم فوت ہوگیا،جس کے ورثاء میں ؛بیوی،ماں،دادی، ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے۔ اب ورثاء برہان علی کا مال تقسیم کرنا چاہتے ہیں ،لہذاآپ سے یہ پوچھنا ہے کہ برہان علی کا مال ان ورثاء میں کیسے تقسیم کیا جائے گا؟ اوپر ذکرکردہ ورثاء میں سے کس کس کومال میں سے حصہ ملے گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکورصورت میں چونکہ تین لوگ فوت ہوئے ہیں اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کا وارث بھی ہے،لہذا ذیل میں بالترتیب تینوں میتوں کے مال کی تقسیم ملاحظہ ہوبرہان علی کے مال میں سے اس کی بیوی کو آٹھواں حصہ(.512فیصد) ملے گا۔ باقی مال تین بیٹوں میں برابر برابر تقسیم ہوگا یعنی ہر ایک بیٹے کو (29.167 فیصد) حصہ ملےگا۔ اس کے بعدچونکہ زید فوت ہوا ہے،لہذا زید کا حصہ یعنی (29.167 فیصد)اس کے ورثاء میں تقسیم ہوگا۔ 1۔برہان علی: (مال:100فیصد) 2۔زید: (مال:29.167فیصد) زید کے مال میں سے اس کی بیوی کو آٹھواں حصہ (3.646فیصد) ملے گا،والدہ کو چھٹا(4.861فیصد) حصہ ملےگا اور باقی مال بیٹے اور بیٹی میں اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ بیٹے کو بیٹی سے دو گنا حصہ ملےیعنی بیٹے کو (13.774فیصد) اور بیٹی کو(6.887فیصد) حصہ ملےگا۔ یہ تو اس مال کی تقسیم ہے جو زید کو برہان علی سے ملا ہےاوراگر بوقت وفات زیدکے پاس اس کےعلاوہ بھی مال تھا تو اس صورت میں دونوں مالوں کو جمع کرلیا جائے،پھر کل مال جتنا بھی ہوجائے اس میں تقسیم کا طریقہ کار یہی ہوگایعنی آٹھواں حصہ زیدکی بیوی ،چھٹا حصہ والدہ اور باقی مال بیٹے اور بیٹی میں اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ بیٹے کو بیٹی سے دو گنا حصہ ملےگا۔پھراس کے بعداسلم فوت ہوا ہے،لہذااسلم کا حصہ یعنی (13.774فیصد)اس کے ورثاء میں تقسیم ہوگا۔ 3۔اسلم: (مال: 13.774فیصد) اسلم کے مال میں سےاس کی بیوی کو آٹھواں حصہ (1.722فیصد) ،والدہ کو چھٹا(2.295فیصد) حصہ اور باقی مال دوبیٹوں اور بیٹی میں اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ ہربیٹے کو بیٹی سے دو گنا حصہ ملے یعنی باقی مال کے پانچ حصے کر لیے جائیں،پھر ان میں سے ہر بیٹے کو دو حصے(3.902فیصد) اور بیٹی کو (1.951فیصد)حصہ ملےگا،نیزاگر بوقت وفات اسلم کے پاس اس کےعلاوہ اپنا ذاتی مال بھی تھا تو اس میں وہی تفصیل ہے جو زید کے حوالے سے ذکر کی گئی ہے۔ خلاصہ : سوال میں چونکہ برہان علی کی وراثت کی تقسیم کا پوچھا گیا ہے،لہذاموجودہ صورت میں برہان علی کے مال میں سے جن ورثاءکو حصہ ملے گا،آسانی کے لیے ذیل میں ان کاجدول ملاحظہ ہو: وارث فیصدی حصہ زوجہ (برہان علی) 12.5فيصدبرہان علی اور 4.861فیصدزید کے مال سے یعنی کل مال 17.361فیصد بیٹا (برہان علی) 29.167فیصد دوسرابیٹا (برہان علی) 29.167فيصد زوجہ (زید) 3.646فیصدزید اور 2.296فیصد حصہ اسلم کے مال میں سے یعنی کل 5.942فیصد بیٹی (زید) 6.887فیصد زوجہ (اسلم) 1.722فیصد بیٹا (اسلم) 3.902فیصد دوسرابیٹا (اسلم) 3.902فیصد بیٹی(اسلم) 1.951فیصد ٹوٹل 100.000فیصد

حوالہ جات
قال اللَّه تعالى في القرأن الكريم: {يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ .........وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ...... } [النساء: 12, 11] قال في الفتاوى الهندية: "وهوأن يموت بعض الورثةقبل قسمة التركة كذا في محيط السرخسي وإذا مات الرجل ،ولم تقسم تركته حتى مات بعض ورثته ......فإن كانت ورثة الميت هم ورثة الميت الأول،ولا تغير في القسمة تقسم قسمة واحدة ؛ لأنه لا فائدة في تكرار القسمة بيانه إذا مات وترك بنين وبنات ثم مات أحد البنين أو إحدى البنات ولا وارث له سوى الإخوة والأخوات قسمت التركة بين الباقين على صفة واحدة للذكر مثل حظ الأنثيين فيكتفي بقسمة واحدة بينهم وأما إذا كان في ورثة الميت الثاني من لم يكن وارثا للميت الأول فإنه تقسم تركة الميت الأول ، أولا ليتبين نصيب الثاني ثم تقسم تركة الميت الثاني بين ورثته فإن كان يستقيم قسمة نصيبه بين ورثته من غير كسر فلا حاجة إلى الضرب." (ج:51,ص:412, المكتبة الشاملة)

سمیع اللہ عباسی

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

23/01/1438

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سمیع اللہ داؤد عباسی

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے