03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کرکٹ کھیلنے میں جوے کاحکم
56130.2جائز و ناجائزامور کا بیانکھیل،گانے اور تصویر کےاحکام

سوال

آج کل ہمارے مسلمان بھائی کرکٹ کھیلتے ہیں ،اس میں دوطرفہ شرط لگاتے ہیں ،اگر شرط لگانے سے منع کیاجائے تو جواب میں کہتے ہیں اگر شرط نہ ہو تو شوق سے نھیں کھلا جاتا ، ان کو حرام سے بچانے کے لئے یہ طریقہ اپنایا جائے کہ ایک تیسرا شخص مقرر ہو وہ آکر میدان کو درست کرے اس کے عوض میں دونوں پاٹی سے مقررہ رقم وصول کرے ، اب دونوں پارٹی کو کھیلنے کی دعوت دے اور کہے جو جیتے گا اس کو انعام کے طور پر میری طرف سے یہ رقم ملجائے گی ۔اگر یہ حیلہ جائز ہو توکیا اس کے ذریعہ حرام شرط سے بچا جاسکتا ہے ؟ الجواب باسم ملہم الصواب

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ حیلے سے دوطرفہ شرط حلال نہیں ہوسکتی ،کیونکہ یہ رقم اس کو میدان درست کرانے کے عوض مالک بناکر نہیں دی جا رہی ہے ، بلکہ یہ رقم ان کے پا س بطور امانت رکھوائی جاتی ہے کہ جیتنے والی پارٹی کے حوالے کی جائے ، لہذا دوطرفہ شرط جوا کے حکم میں داخل رہی ،اس لئے ناجائز اور حرام ہے ،اس سے اجتناب واجب ہے ۔
حوالہ جات
رد المحتار (27/ 24) ( قوله من الجانبين ) بأن يقول إن سبق فرسك فلك علي كذا ، وإن سبق فرسي فلي عليك كذا زيلعي وكذا إن قال إن سبق إبلك أو سهمك إلخ تتارخانية ( قوله لأنه يصير قمارا ) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى ، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه ، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص ، ولا كذلك إذا شرط من جانب واحد لأن الزيادة والنقصان لا تمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة ، وفي الآخر الانتقاص فقط فلا تكون مقامرة لأنها مفاعلة منه زيلعي ( قوله يتوهم أن يسبقهما ) بيان لقوله كفء ، لفرسيهما أي يجوز أن يسبق أو يسبق ( قوله وإلا لم يجز ) أي إن كان يسبق أو يسبق لا محالة لا يجوز لقوله صلى الله عليه وسلم " { من أدخل فرسا بين فرسين وهو لا يأمن أن يسبق فلا بأس به ومن أدخل فرسا بين فرسين وهو آمن أن يسبق فهو قمار } ، رواه أحمد وأبو داود وغيرهما زيلعي
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / فیصل احمد صاحب