021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بحریہ ٹاؤن میں پلاٹ خریدنا
56292خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

سوال:بحریہ ٹاؤن کراچی،حکومتِ پاکستان سے منظور شدہ رہائشی منصوبہ ہے۔ میں نے 2 سال قبل اس میں ایک مکان بک کروایا جس کی رقم 4 سالوں میں مجھے قسط وار ادا کرنی ہے اور اب تک میں 50 فیصد رقم بھی اداکرچکا ہوں ، نیز مکان پر تعمیراتی کام بھی جاری ہے۔ پچھلے دنوں اخبارات میں یہ خبر چھپی کہ بحریہ ٹاؤن کراچی ہاؤسنگ اسکیم کا کچھ رقبہ مبینہ طور پر جعلسازی اور طاقت کے زور پرحاصل کیا گیا اور اس رقبے میں رہائش پذیر لوگوں کو یا تو جبراً بے دخل کیا گیا یا کم قیمت میں انہیں زمینیں بیچنے پر مجبور کیا گیا۔اس سارے قضیے سے متعلق کیس بھی عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔ 1۔اب پوچھنا یہ ہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی ہاؤسنگ اسکیم میں پلاٹ/مکان خریدنا کیسا ہے؟ 2۔بحریہ ٹاؤن میں سرمایہ کاری کرنا کیسا ہے؟ 3۔موجودہ حالات میں اخباری اطلاعات پہ یقین کرتے ہوئے مجھے اپنے اس قیمتی مکان سے جان چھڑالینی چاہیے یا نہیں؟ 4۔اگر میں اپنے گھر کی فائل فروخت کرتا ہوں تو ممکن ہے کہ مجھے اپنی رقم کے ساتھ کچھ منافع بھی مل جائے۔کیونکہ دو سالوں میں اس گھر کی قیمت بڑھ چکی ہے۔ کیا میرے لیے اس منافع کا استعمال جائز ہے؟ 5۔شہر ِکراچی میں حکومت سے منظور اور لیز شدہ تقریباً تمام بڑی رہائشی سوسائیٹیز پر مبینہ طور پر جعلسازی ، کرپشن اور دھونس دھمکی کے الزامات لگتے رہتےہیں، ایسی صورت میں ان رہائشی سوسائیٹیز میں پلاٹ یا مکان خریدنا اور وہاں رہائش اختیار کرنا کیسا ہے؟ 6۔بحریہ ٹاؤن کے جس رقبے کا کیس عدالت میں زیر سماعت ہے اگر اس کا فیصلہ بحریہ ٹاؤن کے خلاف آجاتا ہے تو ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ جبکہ بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہمارا موجودہ مکان اس متنازع رقبے کی حدود میں نہیں آتا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوالات کے جواب سے پہلے کچھ باتیں بطورِ تمہید عرض کی جاتی ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق بحریہ ٹاؤن میں پلاٹ یا مکان خریدنے کا عمل میں درج ذیل مراحل میں سرانجام پاتا ہے۔ پہلے مرحلے میں خریداری کے خواہشمند افراد ایک مخصوص فیس کے عوض رجسٹریشن کرواتے ہیں، جس کے عوض ان افراد کو ایک رسید دی جاتی ہے،اس رسید کی بنیاد پر انہیں قرعہ اندازی میں شامل کیا جاتا ہے۔قرعہ اندازی کے نتیجے میں چند افراد کو منتخب کیا جاتا ہے۔وہ منتخب افراد پلاٹ کی باقاعدہ خریداری کے اہل قرار پاتے ہیں ۔اس مرحلہ میں غیر منتخب افراد کی جانب سے رجسٹریشن کے لئے دی جانے والی رقم میں سے انتظامیہ بعض رقم سروس چارجز کی مد میں کاٹ کر بقیہ واپس کر دے تو اس معاملہ کو بیعانہ کہا جائے گا اور ایسا کرنا جائز ہوگا۔البتہ اگر انتظامیہ اس ساری رقم پر قبضہ کرلے اوربعض یا ساری رقم غیر منتخب افراد کو واپس نہ کرے تو یہ آپشن کی خریدوفروخت کی صورت ہوگی،اور معاملہ شرعاً جائز نہیں ہوگا۔ دوسرے مرحلے میں منتخب شدہ افراد کے ساتھ ایک ایسی فائل کی صورت میں بیع کا معاملہ کیا جاتاہے جس میں خریدار کا نام ،بیچے گئے گھر ،فلیٹ یا پلاٹ کا طول وعرض نیز یہ کہ مثلا پلاٹ رہائشی ہے یا کمرشل اور گھر ہے تو اس میں کتنے بیڈروم ہونگے وغیر ہ اوصاف مذکور ہوتے ہیں ،مگر یہ ذکر نہیں ہوتا کہ یہ پلاٹ وغیرہ بحریہ ٹاون کے بڑے رقبے میں خاص کس جگہ پر واقع ہوگا؟اس طرح بیع کے بعد ایڈوانس رقم لیکر فائل خریدار کے حوالہ کردی جاتی ہے،اوربقیہ ادائیگی کے لئے قسطوں کا شیڈول بھی اس کو بتادیاجاتاہے۔ اب سوالات کا جواب ملاحظہ ہو۔ 1۔ جہاں تک بحریہ ٹاؤن میں پلاٹ یا مکان کی خریداری کا تعلق ہے تو مذکورہ مراحل میں سے پہلے مرحلہ میں اگر بیعانہ کی صورت ہو تو خریداری میں کوئی قباحت نہیں ہوگی،البتہ اگر آپشن کی فروخت کی صورت ہو تو اس بیع میں شامل ہونا درست نہیں ہوگا۔البتہ دونوں صورتوں﴿بیعانہ/آپشن کی خریداری﴾میں پلاٹ پرخریدار کی ملکیت ثابت ہو جائے گی۔ 2۔ بحریہ ٹاؤن میں سرمایہ کاری کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں،ان صورتوں کے احکام بھی مختلف ہونگے۔مثلاً ایک عمومی صورت یہ ہوگی کہ مکان خریدنے کے بعد اس پر قبضہ کیا جائے اور پھر اسے زائد قیمت پر فروخت کیا جائے،اس میں شرعاً کوئی خرابی نہیں ہے اور ایسا کرنا جائز ہے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ خالی پلاٹ خریدکر اس کی فائل پر قبضے کے بعد اس فائل کو آگے فروخت کیا جائے،تو اس کے حکم میں یہ تفصیل ہے کہ اگر اس طرح فائل کے ذریعہ بیع کا مقصد حقیقة پلاٹ کی ملکیت حاصل کرنا نہ ہو بلکہ قیمتوں کا فرق نکال کرنفع کمانا مقصودہوجیساکہ ان پلاٹوں پر لوگوں کے ایسا کاروبارکرنے کی بھی اطلاعات ہیں یا مقصد جعلی عقود کرکے پلاٹوں کی قیمت بڑھانا ہو جیسا کہ بعض ذرائع سے اس صورتحال کی بھی تصدیق ہوئی ہے تو اس طرح بیع پر بیع کا معاملہ تو شرعاقمار،جوا یا نجش اور دھوکے میں داخل ہونے اور صریحا ممنوع ہونے کی بناء پر ناجائز ہے۔ البتہ اگر اس طرح فائل پر قبضہ کراکے بیع کرنے کا مقصد واقعی خریدوفروخت ہو تو ایسی صورت میں صاحبین رحمہمااللہ کے قول کے مطابق یہ حکم ہے کہ اس طرح پلاٹ خریدنے کے بعد محض فائل کے ذریعہ اس کی آگے بیع بھی جائز ہے ،کیونکہ یہ سٹاک ایکسچینج کے شیئر کی طرح مشاع حصے کی بیع ہوگی ،جس پر حکمی قبضےکے بعد اس کی آگے بیع کو علماءنے جائز قرار دیا ہے۔ اور یہاں پر بھی فائل میں پلاٹ خریدارکے نام پر ہوجانے اور فائل اس کےقبضے میں آجانے سے ہمارے خیال میں حکمی قبضہ ہوجاتاہے ،لیکن اس عمل میں کئی خرابیاں پائی جاتی ہیں،جن کی بنیاد پر اس قسم کی خریدوفروخت میں شرکت کرنا نا مناسب ہے،ان خرابیوں میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ بعض اطلاعات کے مطابق ان پلاٹوں کی بیع پر بیع کی وجہ سے ان کی قیمتیں بہت اوپر جاچکی ہوتی ہیں ،اس لئے اس بات کا غالب امکان ہےکہ دو تین سال بعد جب آخری خریداروں کو ان پلاٹوں پر قبضہ دیا جائے گا تو ان کی حقیقی ویلیوان کی قیمت خرید سےبہت کم ہوگی ،اس طرح ان آخری خریداروں کا غیر معمولی نقصان ہوگا ،اس نقصان سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ اس طرح کے کاروبار میں حصہ لینے سےاحتراز کیا جائے۔ 3۔ اگر آپ کو اخباری اطلاعات کے درست ہونے پر غالب گمان یا یقین ہو یا آپ کا گھر اسی متنازعہ حصے میں ہو تو آپ کو اس مکان سے جان چھڑا لینی چاہیئے،لیکن اگر یقین نہیں ہے،یا یقین تو ہے لیکن آپ کا گھر اس متنازعہ حصے میں نہیں ہے تو ان اطلاعات کا اعتبار نہیں ہوگا،کیونکہ ایسے معاملات میں مبتلیٰ بہ کے ظنِ غالب کا اعتبار ہوتا ہے۔ 4۔ فائل کی فروخت کا تفصیلی حکم پہلے گذر چکا ہے،اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو کسی حقیقی خریدار کو فائل فروخت کرنا اور نفع کمانا جائز ہوگا،البتہ کسی پراپرٹی ایجنٹ یا ایسے شخص کو فروخت کرنے میں مذکورہ مفاسد ہونگے،جس کا مقصد حقیقةً خریداری کا ارادہ نہ ہو بلکہ آگے فروخت کر کے قیمتوں کے فرق سے نفع کمانا ہو۔ 5۔ ان الزامات کا تعلق بھی مبتلیٰ بہ کے ظنِ غالب سےہے،لہذا اگر خریدار کو ان الزامات کی سچائی کا یقین یا غالب گمان ہو تو اس کے لئے پلاٹ خریدنا جائز نہیں ہوگا،بصورتِ دیگر جائز ہوگا۔ 6۔ انتظامیہ نے آپ کو یقین دہانی کروائی ہوئی ہے کہ آپ کا مکان متنازع رقبے میں نہیں آتا،اس لئے آپ کے لئے پریشانی کی بات نہیں ہے،تاہم اگر آپ کا یا کسی بھی اور خریدار کا مکان متنازع رقبے میں ہو اور عدالت کا فیصلہ بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کے خلاف آ جائے تو اس حوالے سے غالب گمان یہی ہے کہ انتظامیہ نے گاہکوں کے نقصان کی تلافی کے لئےکچھ قوانین مقرر کر رکھے ہونگے۔اس حوالے سے جواب اسی وقت دیا جا سکتا ہے جب ان قوانین یا تلافی کی حکمتِ عملی کے بارے میں معلومات میسر ہوں۔

حوالہ جات
قال فی مجلة الأحكام العدلية : (المادة 197) : يلزم أن يكون المبيع موجودا. (المادة 198) : يلزم أن يكون المبيع مقدور التسليم (ص: 41) قال ابن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ: "أقول : قد علمت أن المدار على غلبة الظن فلينظر المبتلى في القرائن"۔( رد المحتار ج 26 / ص 320) و قال ایضاً: "اعلم أن المعاملات على ما في كتب الأصول ثلاثة أنواع . الأول : ما لا إلزام فيه كالوكالات والمضاربات والإذن بالتجارة ، والثاني : ما فيه إلزام محض كالحقوق التي تجري فيها الخصومات . والثالث : ما فيه إلزام من وجه دون وجه كعزل الوكيل وحجر المأذون ، فإن فيه إلزام العهدة على الوكيل وفساد العقد بعد الحجر وفيه عدم إلزام ، لأن الموكل أو المولى يتصرف في خالص حقه ، فصار كالإذن . ففي الأول يعتبر التمييز فقط .وفي الثاني شروط الشهادة وفي الثالث إما العدد وإما العدالة عنده خلافا لهما"۔( رد المحتار ج 26 / ص 320) و قال ایضاً: " (ويتحرى في ) خبر ( الفاسق ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( و ) خبر ( المستور ثم يعمل بغالب ظنه)"۔(رد المحتار ج 26 / ص 321) واللہ سبحانہ و تعالی اعلم

عثمان اکبر

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

15/02/1438

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عثمان اکبر

مفتیان

فیصل احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے